اگر میں اب بھی واشنگٹن میں اپنے پرانے نیوز روم میں کام کر رہا ہوتا تو ظاہر ہے کہ میں بیورو چیف کو مشورہ دیتا کہ مجھے فوری طور پر ایسپن یا ویل یا شائد بیور کریک بھیجا جائے تاکہ راکی ماؤنٹینز کی ان مشہور ڈھلوانوں پر لوگوں کی رائے لے سکوں جن پر سکیئنگ کی جاتی ہے۔
بہرحال کولوراڈو میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا نام بیلٹ پیپر سے نکالنے کا حکم اہمیت کا حامل ہے۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ میرے سابق باس میری ہوشیاری کو سمجھ جاتے اور کہتے کہ ’اسے بھول جاؤ دوست۔ خبر تو یہاں واشنگٹن میں ہے۔‘
اور یہ بات درست ہے۔
رواں ہفتے کے فیصلے نے سپریم کورٹ کو 2024 کے صدارتی انتخاب میں اہمیت دے دی ہے اور اسے بڑے سیاسی تنازعے کے وسط میں لا کھڑا کیا ہے۔ اس فیصلے کے بعد فلوریڈا میں بش بمقابلہ گور کے بارے میں سال 2000 کا فیصلہ کھیل کے میدان میں کسی چھوٹے سے جھگڑے کے فیصلے کی طرح نظر آئے گا۔ یہ بالکل وہی جھگڑا ہے جس کے حوالے سے ججوں کو امید تھی کہ اس سے بچ جائیں گے۔
عدالت کا نظریہ ہے کہ جہاں تک ممکن ہو انتخابی سیاست سے دور رہا جائے۔ سادہ الفاظ میں، یہ فیصلہ کرنا رائے دہندگان کا کام ہے نہ کہ عدالتوں کا، کہ کون صدر بننے کے لیے موزوں ہے اور کون نہیں۔
لیکن کولوراڈو کے فیصلے نے ایک بہت بڑا گڑھا کھود دیا ہے کیوں کہ آپ یقین کر سکتے ہیں کہ اگر کولوراڈو کا فیصلہ برقرار رہا تو وہ دیگر ریاستیں جہاں ڈیموکریٹس کی حکومت ہے وہ بھی ایسے ہی حربوں سے کام لیں گی اور سوچیں گی کہ ٹرمپ کو شکست دینے کا یہی یقینی طریقہ ہے۔
میرے ایک دوست جو فعال ڈیموکریٹ ہیں وہ پرجوش انداز میں مجھے ان تمام دیگر ریاستوں کے بارے میں بتا رہا تھے جو اسی راستے پر چل سکتی ہیں۔ واقعی؟
ٹرمپ پہلے ہی اس صورت حال کو فنڈ جمع کرنے کے ایک اور موقعے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ جب بھی ایسا لگتا ہے کہ ’ڈیپ سٹیٹ‘ ان کے خلاف کام کر رہی ہے ان کے مظلوم ہونے کا احساس بڑھ جاتا ہے۔ ان کی حمایت کو تقویت ملتی ہے۔
چھ جنوری کے واقعات کے بعد کی صورت حال پر بات کی جائے تو ناقابل یقین الزام لگایا جاتا ہے کہ جو بائیڈن اور ان کا محکمہ انصاف امریکی آئین کو خطرے میں ڈال رہے ہیں اور جمہوریت کو کمزور کر رہے ہیں۔ ٹرمپ کے حامی زور دار طریقے سے اس بات کی تائید کرتے ہیں۔
گذشتہ کچھ عرصے سے یہ علمی بحث چل رہی ہے کہ کیا 14 ویں ترمیم کی شق تین کو ٹرمپ کو انتخاب لڑنے سے روکنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
یہ ترمیم 1860 کی دہائی میں خانہ جنگی کے بعد منظور کردہ نام نہاد ’تعمیر نو کی ترامیم‘ میں سے ایک تھی اور یہ شق (علیحدگی پسند) جنوبی ریاستوں کے رہنماؤں کو صرف ان سرکاری ملازمتوں پر واپس آنے سے روکنے کے لیے تیار کی گئی تھی جو وہ باقی امریکہ سے علیحدگی کی پرتشدد کوششوں سے پہلے کر رہے تھے۔ مقصد یہ تھا کہ بغاوت کرنے والوں کو دوبارہ حکومتی عہدوں پر آنے سے روکا جائے۔
سیکشن تین ظاہری طور پر بہت واضح ہے۔ اگر آپ نے آئین کی حمایت کا حلف اٹھا رکھا ہے تو آپ امریکہ میں ’کسی عہدے پر فائز‘ نہیں ہوسکتے اگر آپ ’اس کے خلاف سرکشی یا بغاوت میں ملوث ہیں یا اس کے دشمنوں کو مدد یا سہولت فراہم کر رہے ہیں۔‘
یہی کچھ ڈونلڈ ٹرمپ نے چھ جنوری 2021 کو کیا۔ انہوں نے ہجوم سے کہا کہ وہ واشنگٹن پہنچیں کیوں کہ وہ ’جنگل‘ بننے والا تھا۔
جس دن انہوں نے وائٹ ہاؤس کے جنوبی لان سے، باہر جمع ہونے والے ہجوم سے خطاب کیا انہوں نے کہا کہ وہ ملک کو بچانے کے لیے ’پوری شدت کے ساتھ لڑیں۔‘ پھر انہوں نے بعد ازاں اسی روز اور بعد میں بھی حملہ آوروں کی تعریف کی۔
یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہم انجانے راستوں پر سفر کر رہے ہیں۔ ٹرمپ ہمیں ان سیاسی منظرناموں میں لے جانے کی صلاحیت کے ساتھ آج کے واسکو ڈی گاما اور کیپٹن کُک کی طرح ہیں، جہاں پہلے کوئی پہنچا۔
اس شق کو کبھی کسی صدارتی امیدوار کو نااہل قرار دینے کے لیے استعمال نہیں کیا گیا۔ درحقیقت یہ شق خانہ جنگی کے بعد سے صرف دو بار استعمال کی گئی۔ ایک سوال یہ ہے کہ کیا سپریم کورٹ کے نو مرد اور خواتین (جج) واقعی لاکھوں امریکیوں کو اپنے منتخب کردہ امیدوار کو ووٹ دینے کے حق سے محروم کرنے جا رہے ہیں؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عدالت میں تین چھ کی کنزرویٹو اکثریت ہے۔ تین ججوں کا تقرر ڈونلڈ ٹرمپ نے خود کیا۔ لیکن قدامت پسندوں اور لبرلز کے درمیان عدالت کے توازن کو بھول جائیں۔ ہو سکتا ہے کہ میری بات نہ مانی جائے لیکن میرا اندازہ ہے عدالت کولوراڈو کے فیصلے کو نو صفر سے کالعدم قرار دے دے گی۔
وہ فیصلہ کرے گی کہ آیا ترمیم کے الفاظ صدر پر لاگو ہوسکتے ہیں یا نہیں اور یہ دلیل دے گی کہ یہ ابھی تک عدالت میں ثابت نہیں ہوا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے بغاوت کی۔
اسی طرح ان کے وکلا بلا شبہ دلیل دیں گے کہ وہ محض ایک ایسے شخص تھے جو اظہار رائے کی آزادی کے لیے پہلی ترمیم کے تحت حاصل حقوق کا استعمال کر رہے تھے اور محض خلوص دل سے ان خیالات کا اظہار کر رہے تھے کہ صدارتی الیکشن چرایا گیا۔ جج اس دلیل کو اس حساس مسئلے بچنے کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔
لیکن یہ مت سوچیں کہ جھگڑا ختم ہو جائے گا۔ 2024 کے دوران امریکی آئین پر اس طرح آزمائش جاری رہے گی جو پہلے کبھی نہیں رہی۔
عدالتوں میں مقدمات کی بھرمار ہے اور قانونی چیلنجز بھی ہیں۔ چاہے وہ اسے پسند کریں یا نہ کریں ججوں کی طرف سے کہے گئے ہر لفظ کی جانچ پڑتال کی جائے گی کہ کہیں اس میں تعصب تو نہیں پایا جاتا۔ جو کچھ بھی ٹرمپ کی مکمل حمایت سے کم ہو گا وہ اسے انصاف کے نظام پر اعتماد کو مزید کمزور کرنے کے لیے استعمال کریں گے۔
یہ سب کہتے ہوئے سابق صدر کی زبان زیادہ فاشسٹ ہو جاتی ہے۔ کسی دوسرے لفظ کا استعمال انصاف نہیں ہو گا۔ دوسری صدارتی مدت کے پہلے دن آمر بننے کے خیال کو قبول کرنے پر ان کی آمادگی۔ ان ججوں پر ان کے حملے جو ان پر مقدمہ چلانے والے ہیں اور سب سے پریشان کن بات یہ ہے کہ تارکین وطن کے بارے میں ان کی زبان یعنی انہیں ’کیڑا‘ قرار دینا اور یہ کہنا کہ وہ ’ہمارے ملک کے رگوں میں زہر گھول رہے ہیں‘
2016 میں ان کے نزدیک میکسیکو کے لوگ صرف ’چور‘ اور ’ریپ کرنے والے‘ تھے۔ یہ پریشان کن صورت حال ہے۔ اس لیے یہ حیرت کی بات نہیں کہ امریکہ میں بہت سے لوگ ان کا راستہ کسی بھی طرح رکتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔
لیکن سپریم کورٹ کے فیصلے کے بل بوتے پر ٹرمپ کو شکست دینا خطرناک اور امریکی جمہوریت کے لیے مکمل طور پر عدم استحکام کا باعث ہوگا۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔
© The Independent