سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو تین الگ الگ عدالتی دائرہ اختیار میں چار مجرمانہ الزامات کا سامنا ہے۔ آئندہ سال صدراتی انتخابات کے لیے ریپبلکن پارٹی میں پرائمری کی دوڑ میں سب سے آگے ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف تقریباً 100 سنگین مجرمانہ الزامات لگائے گئے ہیں۔
جیسے جیسے ان کی قانونی جنگ ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید پیچیدہ ہوتی جارہی ہے تو یہاں ایک اہم سوال ابھرا ہے کہ کیا ٹرمپ ایک سزا یافتہ مجرم کے طور پر عام انتخابات کے لیے نامزدگی اور مہم جیت پائیں گے؟
اس امکان کے نتیجے میں ایک اور لیکن اس سے آسان سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ کیا امریکہ کے 45 ویں صدر جیل جائیں گے؟
درجنوں دیگر الزامات کے علاؤہ ٹرمپ کو 91 سنگین جرائم کے لیے مجموعی طور پر تقریباً سات سو سال قید کی سزا کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ظاہر ہے ٹرمپ کو ہمیشہ کے لیے وفاقی جیل میں بند نہیں کیا جائے گا لیکن جس تیزی سے کارروائیوں کے لیے اب ان پر مقدمہ چلایا جا رہا ہے وہ آہستہ آہستہ اس امکان کو ختم کر رہا ہے کہ وہ ہمیشہ کی طرح جیل جانے سے بچ جائیں گے۔
ٹرمپ اس وقت جن چار مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں ان پر ایک نظر ڈالتے ہیں اور اس پر بھی کہ ان میں سے ہر ایک مقدمہ اگلے سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے انتخابی مہم چلانے کے امکانات کو کیسے متاثر کرے گا۔
1. نیویارک کیس (قید کی زیادہ سے زیادہ سزا 136 سال)
یہ سابق صدر کے خلاف عائد کی جانے والی پہلی فرد جرم ہے جو ماضی میں سب سے سنگین طرز عمل سے بھی متعلق ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ پر فرسٹ ڈگری میں کاروباری ریکارڈ میں گڑبڑ کرنے کے 34 مقدمے کا سامنا ہے جو نیویارک کے ریاستی قانون کے تحت ایک سنگین جرم ہے۔
ہر مقدمے میں زیادہ سے زیادہ چار سال قید کی سزا ہوتی ہے۔
تاہم اس طرح کی سزائیں تخفیف جیسے حالات کے تحت کم کر دی جاتی ہیں مثال کے طور پر سابقہ سنگین سزائیں یا جرم کی سنگینی کی بنیاد پر۔ ٹرمپ کا الزام بڑی حد تک بے قصور ہونے سے متعلق ہے اور جج کی طرف سے انہیں جرمانے کے علاوہ کسی اور چیز کی سزا دینے کا امکان نہیں ہے یا زیادہ سے زیادہ پروبیشن اور جیوری کمیونٹی سروس کی صورت میں انہیں سزا سنا سکتی ہے۔ اس کیس کی سماعت 25 مارچ کو مقرر ہے۔
2. دستاویزات کا کیس (زیادہ سے زیادہ سزا 450 سال قید)
گذشتہ سال فلوریڈا میں ٹرمپ کی رہائش گاہ ’مارا لاگو‘ پر ایف بی آئی کے چھاپے کے ساتھ عوامی ہنگامے کے بعد اس فرد جرم میں جو الزامات لگائے گئے ہیں اس سے ٹرمپ کو اپنے سابق نائبین، جیسے اٹارنی جنرل بل بار کی طرف سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ صدر پر الزام ہے کہ انہوں نے خفیہ معلومات کو غلط طریقے سے استعمال کیا جس میں ایک مثال میں اپنے بیڈمنسٹر ریزورٹ میں مہمانوں کو خفیہ مواد دکھانا بھی شامل ہے۔
ان پر انصاف میں رکاوٹ ڈالنے اور جھوٹے بیانات دینے کا بھی الزام ہے۔ سابق صدر کو جان بوجھ کر راز رکھنے کے جرم میں زیادہ سے زیادہ 10 سال قید اور انصاف میں رکاوٹ ڈالنے کے جرم میں 20 سال قید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اگرچہ انصاف میں رکاوٹ ڈالنے کے الزام کی سزا زیادہ ہے لیکن انہیں پہلے الزام کے بارے میں واقعی فکر مند ہونا چاہئے۔ خفیہ معلومات کو جان بوجھ کر یا اسے لاپرواہی سے رکھنے کی سزا اکثر کئی سال یا اس سے زیادہ قید کی سزا کا باعث بنتی ہے۔ ٹرمپ کو ان میں سے 30 سے زیادہ الزامات کا سامنا ہے۔
اس کیس کی سماعت 20 مئی کو مقرر ہے۔
3. وفاقی انتخابات کا کیس (زیادہ سے زیادہ سزا 55 سال قید)
ڈونلڈ ٹرمپ پر محکمہ انصاف کی حالیہ فرد جرم 2020 کے انتخابات سے متعلق تھی جو ان کی ٹیم کی طرف سے نتائج کو تبدیل کرنے کی مہینوں طویل کوششوں سے متعلق ہے۔
اس کیس کے دو بنیادی حصے ہیں جن سے سابق صدر کو تشویش ہونی چاہیے۔ اس بات کا امکان ہے کہ انہہیں امریکہ کو دھوکہ دینے کی سازش اور اس کے شہریوں کے آزادانہ انتخابات میں ووٹ دینے کے حق کے خلاف سازش کرنے کا مجرم قرار دیا جائے گا اور یہ امکان ہے کہ انہیں ایک ہجوم کے ذریعے کیپٹل ہل پر حملہ کرنے اور انتخابات کے سرٹیفیکیشن کو روکنے کی براہ راست کوشش کرنے کا مجرم قرار دیا جائے گا۔
پہلا الزام یقینی طور پر استغاثہ کے لیے ایک مشکل جنگ سے کم نہیں ہے یہ دیکھتے ہوئے کہ ٹرمپ مہم کی انتخابی ہیرا پھیری کی کوششوں کے کتنے ہی ثبوت اب عام ہو چکے ہیں۔ اس سلسلے میں اصل جنگ استغاثہ کی ہوگی کہ وہ یہ ثابت کریں کہ ٹرمپ ٹیم کی کوششیں انتخابی نتائج کے لیے قانونی چیلنجوں سے آگے نکل گئی تھیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسرا الزام ثابت کرنا تھوڑا مشکل ہے۔ ٹرمپ اور ان کے اتحادیوں نے حملے کے بعد سے ہی اس بات کی سختی سے تردید کی تھی کہ ٹرمپ کے حامیوں کا ہجوم، جس نے کیپیٹل ہل پر حملہ کیا جس سے کانگریس کے ارکان کو اپنی جانوں کے خوف سے چھپنا پڑا تھا، کو خود صدر کی طرف سے ہدایت کی گئی تھی۔
سابق صدر ممکنہ طور پر اپنے (بعد میں دیے گئے) ویڈیو پیغام، جس میں فسادیوں کے جوش و خروش پر خوشی کا اظہار کیا گیا اور حملہ شروع ہونے کے چند گھنٹوں بعد انہیں گھر جانے کی تاکید کی گئی، کو اس ثبوت کے طور پر پیش کریں گے کہ وہ اس سب میں شامل نہیں تھے۔
اگر انہیں دونوں میں سے کسی ایک الزام میں بھی سزا دی گئی تو انہیں ہر مقدمے کے لیے زیادہ سے زیادہ جیل کی سزا کا سامنا کرنا پڑے گا خاص طور پر کارروائی میں رکاوٹ کے الزامات میں جس کی سزا 20 سال قید ہے۔
اس کیس کی سماعت چار مارچ کو مقرر ہے۔
4. جارجیا کیس (زیادہ سے زیادہ سزا 76.5 سال قید)
تازہ ترین فرد جرم جو ان پر عائد کی گئی ہے ریاست جارجیا میں ٹرمپ کے خلاف فلٹن کاؤنٹی کا مقدمہ ہے جو اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس میں صرف کم از کم قید کی سزا کے الزامات ہی شامل ہیں۔
ٹرمپ پر اس ریاست میں معمولی سے درمیانے درجے کے سنگین جرائم کا بھی الزام ہے۔ یہ ان پر جارجیا کے ’ریکو‘ قانون کی خلاف ورزی کا الزام ہے جس پر انہیں سب سے زیادہ پریشان ہونا چاہیے۔ اس میں کم از کم پانچ سال اور زیادہ سے زیادہ 20 سال سلاخوں کے پیچھے کی سزا ہے۔
ریکو چارج بلاشبہ پراسیکیوٹر فانی ولیس اور ان کی ٹیم کے لیے سب سے مشکل ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ اس میں مخصوص الزام کے کم الزامات (اور کم ثبوت) شامل ہیں اور اس کی بجائے اس کا انحصار استغاثہ پر ہے جو جج اور جیوری کو اس بات پر قائل کریں گے کہ ٹرمپ کی جارجیا میں انتخابی نتائج کو تبدیل کرنے کی مجموعی کوشش مکمل طور پر مجرمانہ اقدام بننے کی حد سے زیادہ تھا یا نہیں۔
اگر یہ الزام ناکام ہوجاتا ہے تو بھی ٹرمپ کو 12 دیگر سنگین جرائم کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جن میں سے سبھی میں قید کے امکانات ہیں۔
ٹرمپ کی قید کی سزا کا کتنا امکان ہے؟
یہ کہنا مشکل ہے لیکن ایک بات واضح ہے کہ ٹرمپ کے لیے صورت حال روز بروز بدتر ہوتی جا رہی ہے۔
قانونی ماہرین، جنہوں نے انتخابی چیلنجوں سے متعلق محکمہ انصاف کے مقدمات کا قریب سے مشاہدہ کیا ہے، نے ڈی او جے کیس کی مضبوطی اور ایجنسی کی طرف سے مقدمے کو اس مقام تک محدود کرنے کی ظاہری کوشش پر یکساں تبصرہ کیا ہے جہاں یہ 2024 کے عام انتخابات سے پہلے عدالتوں کے ذریعے آگے بڑھ سکتا ہے۔
یہ سوال بھی باقی ہے کہ ٹرمپ چاروں مقدمات میں مہنگی قانونی کارروائی کو کتنی دیر تک برقرار رکھ سکتے ہیں یہ دیکھتے ہوئے کہ چار ہائی پروفائل مجرمانہ مقدمات میں کتنے مزید ملین ڈالر کا اضافے کا امکان ہے۔
آخر میں اس سوال کا جواب کہ آیا کہ ٹرمپ کبھی جیل کی ہوا کھائیں گے یا نہیں یا انہیں سزا سنائی جائے گی لیکن کیا سابق صدر کو جیل میں ڈالنا ممکن بھی ہے؟ خاص طور پر کیا انہیں اگلے سال عام انتخابات جیتنے چاہیں؟ اگر ایسا ہوا تو اس سے پیچیدگی میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔
متعدد مقدمات میں ایک بات واضح ہے اور وہ یہ کہ ڈونلڈ ٹرمپ، اپنے متعدد مقدمات کے نتائج سے قطع نظر، امریکی جمہوریت کو پہلے ہی نامعلوم اور بے مثال حدود میں دھکیل چکے ہیں۔ یہاں سے جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ دنیا کی سب سے طاقتور جمہوریت میں بے مثال ہو گا۔
© The Independent