پاکستان میں دنیا کے فیشن کا فلٹرڈ ورژن ملتا ہے: طارق امین

کراچی میں 1983 میں اپنا کیریئر شروع کرنے کے بعد سے انہوں نے مڑ کر کبھی پیچھے نہیں دیکھا۔ بقول طارق امین: ’میں چہروں کی پینٹنگ کرنے کی بجائے چہرے پینٹ کرتا ہوں۔ میں دل سے ملنگ ہوں اور قدرتی طور پر مزدور ہوں۔‘

چار دہائیوں سے فیشن کی دنیا پر چھائے طارق امین کہتے ہیں کہ 60 سال کا ہونے کے باوجود وہ اب بھی جوان ہیں (انڈپینڈنٹ اردو)

اس شخص کا نام سے زیادہ چہرہ اور منفرد انداز مشہور ہے جبکہ چہرے سے زیادہ شاید نام جانا پہچانا جاتا ہے۔ یہ پاکستانی شوبز اور سٹائل کی دنیا کے بے تاج بادشاہ طارق امین ہیں۔

لکس سٹائل ایوارڈ میں 2017 میں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ حاصل کرنے والے اور پاکستان کے ٹاپ سٹائلسٹ طارق امین چار دہائیوں سے اس صعنت سے وابستہ ہیں۔ پاکستان کے اندر اور باہر کون سی اہم شخصیات ہیں، جنہوں نے ان کے ٹیلنٹ سے فیض نہ پایا ہو۔ کیا اداکار، کیا سیاست دان اور کیا گلوکار۔ 

60 سالہ طارق امین کے ’مداحوں‘ میں بے نظیر بھٹو اور ریما جیسی شخصیات شامل رہ چکی ہیں۔ سابق مرحوم وزیراعظم کی شادی پر میک اپ کرنے کا اعزاز بھی طارق امین کو حاصل ہے، جس کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ انہیں اصل شناخت ہی اس سے ملی۔

اسلام آباد کے ایک ریستوران میں ان سے پہلی مرتبہ ملاقات اور گفتگو کا موقع ملا، جس کے بعد میں نفاست اور خیالات کی شفافیت کا احساس لے کر واپس لوٹا۔ سفید کوٹ اور فلسطینی سرخ و سیاہ كوفیہ ان کی سفید داڑھی کے ساتھ جچ رہا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ 60 سال کا ہونے کے باوجود وہ اب بھی جوان ہیں۔ ’مجھے بتایا جاتا ہے کہ 60 اب نیا 20 سالہ ہے۔‘

کراچی میں 1983 میں اپنا کیریئر شروع کرنے کے بعد سے انہوں نے مڑ کر کبھی پیچھے نہیں دیکھا۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ تخلیقی آدمی ہیں اور اپنے ہاتھوں سے کچھ کرنا چاہتے تھے یعنی ان کے ہاتھ حسن بڑھاتے رہے۔ ’میں چہروں کی پینٹنگ کرنے کی بجائے چہرے پینٹ کرتا ہوں۔ میں دل سے ملنگ ہوں اور قدرتی طور پر مزدور ہوں۔‘

1997 میں پیرس فیشن ویک میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے واحد میک اپ آرٹسٹ کی حیثیت سے ملک کے خوبصورت ترین چہروں کو لانچ کرنے، 2016 میں پاکستان کی قومی ایئرلائن پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کے کیبن کے عملے کو میک اوور دینے سے لے کر ’ووگ‘ اور کچھ بڑے مقامی اور بین الاقوامی اشاعتوں میں ذکر کیے جانے تک، طارق اب تک پاکستانی سٹائلسٹوں اور میک اپ آرٹسٹوں کی نئی نسل کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔

لیکن انہیں ایک خلش ہے کہ پاکستان میں خوبصورتی کو سیلیبریٹ یعنی منایا نہیں جاتا۔ بقول طارق: ’ہم کترینا بننا چاہتے ہیں لیکن عائشہ عمر کا ہیئر سٹائل نہیں اپنانا چاہتے۔‘ 

دوران انٹرویو ایک چھوٹی سی میز کے اردگرد بیٹھ کر ان سے پہلا سوال خوبصورتی سے متعلق داغا۔ ایک خوبصورت آدمی جو حسن کو نکھارتا آیا ہے وہی شاید اس کا صحیح جواب دے سکتا تھا۔ پوچھا کہ کیا پاکستان میں چار دہائیوں کے خوبصورتی کے تصور میں کوئی فرق آیا ہے؟ انہوں نے ہنستے ہوئے جواب دیا: ’ہمارے ہاں خوبصورتی کا تصور روز تبدیل ہوتا ہے اور بدقسمتی سے دنیا کا تصور یہاں آنے میں وقت لیتا ہے۔ ہماری ذہنیت ٹیوب لائٹ کی طرح ہے، جو تھوڑا پھڑک کر جلتی ہے۔‘

 

لیکن ان کی اگلی بات زیادہ تشویش ناک تھی۔ ان کا اصرار تھا کہ یہ حقیقی دنیا نہیں ہے۔ ’مغرب میں جہاں فیشن بنتا ہے لندن، پیرس، نیو یارک وہ حقیقی دنیا ہے۔ یہاں آپ کو اس کا چھن کر آنے والا (فلٹرڈ) ورژن ملتا ہے۔‘

طارق امین کا کہنا تھا کہ فیشن اب اشرافیہ تک محدود نہیں رہا۔ ’یہ اب سب کی پہنچ میں ہے۔ پاکستان میں فیشن کی صعنت ترقی پا رہی ہے۔ بہت سی تبدیلیاں آئی ہیں لیکن یہ اب بھی سٹریٹ فیشن، یعنی جو آپ نے اور میں نے پہنا ہے، جو نارمل لوگ پہنتے ہیں، پر مبنی نہیں ہے۔‘

پاکستان میں فیشن کی صنعت میں جو شعبہ سب سے زیادہ پلا بڑھا ہے وہ ہے برائیڈل فیشن۔ بقول طارق امین: ’یہ فیشن صرف مقامی مارکیٹ کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ معاشی بحران ہو یا نہ ہو شادیاں نہیں رکتیں۔ لہنگے بکتے رہتے ہیں۔ کچھ بھی ہو فیشن تفریح بن گئی ہے۔ بہت سی تبدیلیاں آئی ہیں لیکن سب مثبت نہیں ہیں۔‘

سوشل میڈیا نے ان کا کام مشکل یا آسان بنایا؟ اس سوال کے جواب میں طارق امین کا کہنا تھا کہ اب ہر کوئی سٹار ہے۔ ’کوالٹی معمولی یا اوسط درجے کی (Mediocre) ہوگئی ہے۔ کوئی بھی آگے پیچھے اچھل کود کر اہمیت اختیار کرلیتا ہے۔‘

فلٹرز کے بعد اب آرٹیفیشل انٹیلی جنس نے مزید کیا گُر کھلائے ہیں؟ اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اب تو آپ جا کر ناک خرید سکتے ہیں، چیک بونز (گال کی ہڈیاں) خرید سکتے ہیں، آپ اپنے سِکس پیکس خرید سکتے ہیں، آپ اپنے بال خرید سکتے ہیں۔ اب یہ فرد پر منحصر ہے کہ وہ کیا چاہتا ہے۔ سب کچھ دستیاب ہے۔‘  

طارق کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا بس آپ کو قابل ذکر بناتا ہے۔ خبریں پڑھنے سے لے کر ہر چیز بدل گئی ہے۔ ’فیشن اور سیلون کا کاروبار تبدیل ہوا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’میرے اعتبار سے آج کل خواتین میک اپ کر کے زیادہ بھیانک لگ رہی ہیں۔ جو ٹیوٹوریل آپ کو سکھا رہے ہیں وہ آپ کے لیے نہیں ہوتے۔ وہ سٹیج، ڈریگ کوئین کے لیے ہوتے ہیں۔ اگر لوگ یہ چاہتے ہیں تو میں کیا کرسکتا ہوں۔ ہم اپنے اندر اور ایک دوسرے کے اندر پرفیکشن تلاش کر رہے ہیں جو پائیدار نہیں ہے۔ میڈیا آپ کو بتا رہا ہے کہ چلنا کیسے ہے اور کیا پہننا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

طارق امین ان خوش قسمت افراد میں شامل ہیں جو پاکستان میں رہنے پر خوش اور مطمئن ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک چھوڑنے کا خیال کبھی ان کے ذہن میں نہیں آیا۔ ’مجھے اپنا سبز پاسپورٹ پسند ہے اور میں فرسٹ کلاس شہری ہی رہنا چاہتا ہوں۔‘

وہ فی الحال لاہور، کراچی اور اسلام آباد میں (جہاں وہ رہتے ہیں) اپنے سیلون چلا رہے ہیں۔ ہر مہینے ان کے کراچی اور لاہور کے چکر لگتے ہیں لیکن وہ اپنے فارغ وقت سے سب سے زیادہ اپنے خاندان، اپنی 12 بلیوں اور دو کتوں کے ساتھ لطف اندوز ہوتے ہیں۔

اپنے 40 سال کے تجربے کو نوجوانوں میں منتقل کرنے کے لیے اکیڈمی کھولنے سے متعلق سوال پر ان کا جواب تھا کہ آج کی نسل ایک ہفتے میں استاد بننا چاہتی ہے۔ ’اکیڈمی شروع کی لیکن کوئی آیا ہی نہیں۔ لوگ یہ کام ایک ہفتے میں سیکھنا چاہتے ہیں۔‘

کہتے ہیں کہ طارق پاکستانی فیشن میں ’بہت سے کلونز میں سے ایک‘ نہیں بلکہ ’اصلی‘ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنی ذاتی زندگی کے بارے میں کتاب لکھنا چاہتے ہیں، جس کا انہیں اب تک وقت نہیں ملا۔ 

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی میگزین