بلوچ مظاہرین سے فی الحال کوئی مذاکرات نہیں ہو رہے: مرتضیٰ سولنگی

نگران وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے بدھ کو انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وفاقی حکومت بلوچ مظاہرین کی جانب سے ان کے مطالبات کی فہرست، مذاکرات کے وقت اور مقام کا انتظار کر رہی ہے۔

پاکستان کے نگران وزیر اطلاعات و نشریات مرتضیٰ سولنگی نے کہا ہے کہ اس وقت بلوچستان سے آنے والے بلوچ مظاہرین سے کوئی مذاکرات نہیں ہو رہے۔

نگران وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے بدھ کو انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’حکومت بلوچ مظاہرین کے مطالبات کی فہرست، مذاکرات کے وقت اور مقام کا انتظار کر رہی ہے۔‘

مرتضی سولنگی نے رواں ہفتے کے آغاز پر ایک نجی ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی خواہش ہے کہ مظاہرین عزت، وقار اور سلامتی کے ساتھ اپنے گھروں کو واپس جائیں اور مزید مذاکرات اسلام آباد میں نہ ہوں۔

بلوچستان کے علاقہ تربت سے شروع کیے جانے والے لانگ مارچ کے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مظاہرین 20 دسمبر کو اسلام آباد پہنچنے کے بعد اس کیمپ میں شامل ہو گئے تھے جو گذشتہ ایک ماہ قبل بلوچ لاپتہ اور جبری طور پر گمشدہ افراد کی واپسی کے لیے نیشنل پریس کلب کے باہر لگایا گیا تھا۔

دوسری جانب احتجاجی کیمپ یا دھرنے کی منتظم اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما سمی دین بلوچ کا کہنا ہے کہ اسلام آباد پہنچنے کے بعد ان کے 283 افراد کو حراست میں لے لیا گیا تھا، جن میں سے اب تک 247 کو رہا کر دیا گیا ہے۔

سمی دین بلوچ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ’ہمارے ساتھیوں کو مختلف جیلوں سے رہا کیا گیا ہے۔ تاہم ابھی تک 34 افراد کو رہا نہیں کیا گیا ہے۔ شاید ان افراد کو آج یا کل رہا کر دیا جائے گا۔‘

حکومت سے مذاکرات یا آئندہ کے لائحہ عمل کے حوالے سے سمی بلوچ کا کہنا تھا کہ ’تمام ساتھیوں کی رہائی کے بعد ہی حکومت سے بات کی جائے گی اور تب ہی ہم اگلا لائحہ عمل دیں گے۔‘

تاہم بلوچ مظاہرین کی رہائی کے حوالے سے پیر 25 دسمبر 2023 کو وزارت داخلہ نے کہا تھا کہ وزیراعظم کی تشکیل کردہ کمیٹی کے مذاکرات اور عدالت کے فیصلے کی روشنی میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے احتجاج کرنے والے تمام افراد کو رہا کر دیا گیا ہے۔

وزارت داخلہ کے ترجمان کی جانب سے جاری کیے جانے والے بیان میں کہا گیا تھا کہ ’پولیس تحویل اور جیل سے مجموعی طور پر 290 مظاہرین کو رہا کر دیا گیا ہے۔

’کسی کو گود میں بٹھاتے ہیں، کسی کے ساتھ یہ سلوک کرتے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ نے بدھ کو بلوچ مظاہرین کی گرفتاریوں اور احتجاج کا حق دینے سے روکنے کے خلاف کیس میں 34 بلوچ مظاہرین کی شناخت پریڈ کا حکم دیا ہے جبکہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنما ظہیر بلوچ کے حوالے سے عدالت کو بتایا گیا کہ وہ اس وقت اڈیالہ جیل میں موجود ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں بدھ کو ہونے والی سماعت کے دوران جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے وکیل کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ بلوچ مظاہرین جب اسلام آباد کی طرف گامزن تھے تو انہیں گرفتار کیا گیا۔

اس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ایس ایس پی آپریشنز اسلام آباد جمیل ظفر سے استفسار کیا کہ ’کیا آپ نے آرڈر دیا کہ ان کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے؟ کسی کو آپ گود میں بٹھاتے ہیں، کسی کے ساتھ یہ سلوک کرتے ہیں۔ وہ آئے ہیں ان کو بیٹھنے دیں۔‘

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ایس ایس پی آپریشنز جمیل ظفر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں تو سیکرٹری داخلہ کو بلا لیتے ہیں، ایس ایس پی نے جواب دیا کہ انہوں نے ریکویسٹ کی تھی شناخت پریڈ جلدی کریں۔

عدالت نے دوبارہ برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’ان سے زیادہ مظاہرین یہاں آتے رہے ہیں آپ ان کو پیمپر کرتے رہے، کیا کیا ہے انہوں نے؟‘

بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے 34 بلوچ طلبہ کی بدھ ہی کو شناخت پریڈ کا حکم دیتے ہوئے کیس کی سماعت 29 دسمبر تک ملتوی کر دی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان