وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کی تشکیل کردہ کمیٹی کے مذاکرات اور عدالت کے فیصلے کی روشنی میں بلوچ یکجہتی میٹی کے احتجاج کرنے والے تمام افراد کو رہا کر دیا گیا ہے۔
پیر کو وزارت داخلہ کے ترجمان کی جانب سے جاری کیے جانے والے بیان کے مطابق پولیس تحویل اور جیل سے مجموعی طور پر 290 مظاہرین کو رہا کردیا گیا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ’پرامن احتجاج ہر کسی کا حق ہے لیکن کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘
ترجمان وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ ریڈ زون کی سکیورٹی کو ہر صورت یقینی بنایا جاتا ہے، ریڈ زون میں آئینی ادارے اور ڈپلومیٹک انکلیو ہے۔
’اسلام آباد پولیس کی جانب سے خصوصی مدد سنٹر قائم کیا گیا تھا جس نے اپنا کام مکمل کر لیا ہے۔‘
ترجمان وزارت خارجہ نے ٹیلی فون نمبرز بھی جاری کیے ہیں جن پر اس معاملے میں کسی بھی مشکل کی صورت میں رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام ’جبری گمشدگیوں‘ اور ’ماورائے عدالت قتل‘ کے خلاف وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں دھرنے دیے گئے تھے جس میں سے مظاہرین کو گرفتار بھی کیا گیا تھا۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کا یہ لانگ مارچ بلوچستان کے علاقے تربت میں مبینہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے بلوچ نوجوان کے واقعے کی جوڈیشل انکوائری اور لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے رواں ماہ کے آغاز میں تربت سے اسلام آباد روانہ ہوا تھا، جو بدھ کی شب وفاقی دارالحکومت پہنچا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس مطالبے کے لیے تربت سے شروع ہونے والے مارچ کے شرکا کو بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب واٹر کینن کا استعمال کیا گیا تھا اور ان کے کئی مظاہرین کو گرفتار کیا گیا تھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے جمعے کو بلوچ یکجہتی کمیٹی کے لانگ مارچ کے شرکا کی گرفتاریوں کے کیس میں انسپکٹر جنرل (آئی جی) اسلام آباد اکبر ناصر خان کو حکم دیا ہے کہ سیکٹر آئی 10 میں موجود خواتین شرکا کو لانگ مارچ کے منتظمین کے حوالے کردیا جائے۔
گذشتہ روز اسلام آباد پولیس نے مظاہرین کی ضمانتوں اور رہائی کے بارے میں سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر بیان جاری کیا تھا تاہم رہا کیے جانے والے بلوچ مظاہرین کی تعداد نہیں بتائی گئی تھی۔
پاکستان کے نگران وزیر اطلاعات و نشریات مرتضیٰ سولنگی کا کہنا ہے کہ گذشتہ روز بھی مذاکراتی کمیٹی کے بلوچ مظاہرین سے مذاکرات ہوئے تاہم ’ہم چاہتے ہیں کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ بقیہ مذاکرات اسلام آباد کی بجائے بلوچستان یا کوئٹہ میں ہوں۔‘
نگران وفاقی وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے نجی ٹی وی چینل جی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ بلوچستان سے آئے مظاہرین میں اکثریت خواتین کی ہے جو اس وقت اسلام آباد پریس کلب کے سامنے موجود ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہماری خواہش ہے کہ مظاہرین عزت، وقار اور سلامتی کے ساتھ اپنے گھروں کو واپس جائیں اور مزید مذاکرات اسلام آباد میں نہ ہوں۔ بہتر ہو گا کہ بلوچستان میں ہوں، کوئٹہ میں ہوں۔‘
مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ ’ہمارے پاؤں میں مہندی نہیں لگی کہ ہم نہیں جا سکتے، ہم جائیں گے لیکن ہم چاہتے ہیں کہ گفتگو کر کے اس کے حل کی طرف جائیں۔‘
بلوچستان سے آئے مظاہرین میں سے گرفتار کیے جانے والے افراد کے بارے میں نگران وزیر اطلاعات نے کہا کہ ’گرفتار خواتین کو دو دن پہلے ہی رہا کر دیا گیا تھا جبکہ 163 مردوں کی رہائی کا عمل جاری ہے۔‘
تاہم آج وزارت داخلہ کی جانب سے جاری کیے جانے والے بیان کے مطابق تمام 260 مظاہرین کو رہا کر دیا گیا ہے۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔