کشمیر سے کراچی، گلگت سے گوادر تک، چوپال ہو یا چاردیواری، گھر ہو یا دفتر، وطن عظیم میں بسنے والے ہر ذی شعور شہری تک جو پیغام سینہ بہ سینہ پہنچ رہا ہے، جس نعرے کی گونج ہر سمت سے سنائی دے رہی ہے وہ نعرہ ہے ’وسائل بھی ہمارا ساحل بھی ہمارا۔‘
مسائل میں گھرے بلوچستان کی کہانی۔ ہر بلوچ گھر کی کہانی، ہر غیور، جفاکش اور محب وطن پاکستانی کی کہانی۔ یہ مسئلہ ہے بلوچ حقوق کا مسئلہ۔ وسائل کے عوامی اختیار کا مسئلہ۔ اس مسئلے کو سچ پوچھیں تو کبھی سنجیدہ لیا ہی نہیں گیا۔
بلوچ مسئلہ اس قدر گمبھیر ہے کہ اسے سہل سمجھنے والے بھی اس کی سنگینی سے منہ چھپائے انجان بنے بیٹھے ہیں اور یہی خطرے کی سب سے بڑی علامت ہے۔ مسنگ پرسنز کا مسئلہ اتنا آسان نہیں جتنا آسان اسے لیا جا رہا ہے۔ کسی بھی مسئلے کی پیچیدگی کا ادراک اس کے ارتقا سے کیا جاسکتا ہے۔
1841 میں ٹریٹی آف قلات انگریز سامراج کے لیے گرین کارڈ بلکہ لائسنس ٹو کل ثابت ہوا۔ کسی بھی ریاست میں بیرونی مداخلت کا پہلا مرحلہ نفری کی تعیناتی میں فوجوں کا انحطاط ہوا کرتا ہے اور یہیں سے اس مسئلے کا آغاز ہوا پھر 1877 میں ہی بلوچستان کی تین ٹائم زونز میں تقسیم جس کی بنیاد ہی لسانیت، جنگی ضروریات اور جنگی پیش بندی سے متعلق تھی اس کی تقویت کا باعث بنی۔
برصغیر کی تقسیم کے وقت 13 ریاستوں میں سوات، دیر، چترال، ہنزہ، نگر، پھلرہ، بہاولپور، امرتسر، خیرپور، لسبیلہ، قلات، مکران اور خاران کی تقسیم پر غور کیا جائے تو اس مسئلے کو سمجھنے میں اور بھی آسانی ہو گی۔
چیف کمشنر بلوچستان کے زیر انتظام مکران خاران اور لسبیلہ نے17 مارچ 1948 جبکہ خان آف قلات نے ٹھیک 10 روز بعد 27 مارچ 1948 کو پاکستان سے الحاق کیا گیا۔
بلوچستان اور پشتونستان کے مسئلے کو جوڑ کر دیکھا جائے تو تاریخی اعتبار سے 1947 میں خیبر پختونخوا میں ہونیوالے ریفرنڈم میں 90 فیصد سے زائد لوگوں نے پاکستان کو ووٹ کیا اورمارچ 1948 میں ریاست قلات کے پاکستان سے الحاق کا معائدہ کڑیوں سے کڑیاں جوڑتا دکھائی دیتا ہے۔
خان آف قلات احمد یار خان کے فیصلے کو انہی کے بھائی پرنس عبدالکریم کی جانب سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑا جنہوں نے ابتدائی تین ماہ میں جولائی 1948 کو ہی بغاوت کا آغاز کر دیا۔ تاہم پرنس عبدالکریم کا افغانستان جانا بھی بے سود رہا اور افغانستان و روس سے وفا کی امیدیں بھی دم توڑ گئیں تو بالآخر ہتھیار ڈال کر معاہدہ کرنا پڑا اور ناکام بغاوت کی سزا بھی بھگتنا پڑی۔
1950 کی دہائی میں بلوچستان میں ایک اور لہر اٹھی جو ون یونٹ کے خلاف تھی۔ بلوچستان میں بے چینی کا عالم تھا۔ اس وقت بھی بلوچوں میں یہی تاثر پروان چڑھا کہ ون یونٹ کے قیام سے ان کی آزادی کو سلب کیا گیا ہے اور ان کے علیحدہ تشخص کو برقرار نہیں رہنے دیا گیا۔ 1960 میں پشتون سردار داود کی سربراہی میں پشتونوں کے اتحاد اور انہیں یکجا کرنے کی ایک تحریک چلی جو افغانستان کے غیر پشتون طبقے میں غیر مقبول رہی۔
یہی وہ دور تھا جب بلوچستان اپنی شناخت، اپنی پہچان، اپنی عزت، اپنے وقار کے لیے تگ و دو کا آغاز کرچکا تھا، لسانیت کی بنیادوں پر اقتدار کے ایوانوں میں نشیب و فراز کا سلسلہ جاری رہا۔
1971 میں شیخ مجیب کی مکتی باہنی اور بنگلہ موومنٹ کے اثرات بھی بلوچستان پر اثر انداز ہوئے، 1972 میں جی ایم سید کی جانب سے سندھو دیش مطالبے کے اثرات نے بھی بلوچستان کو متاثر کیا۔ 1973 -1977 کا دور این ای پی کی حکومت کے اختتام اور خیر بخش مری کی گرفتاری پر پشتونستان کی سیاسی سوچ کا اختتام ہوا تو بلوچ عوام کے جذبات بھی بری طرح مجروح ہوئے۔
1971 تک پشتونستان ڈویژن کا مرکز کوئٹہ اور بلوچ ڈویژن کو قلات تک محدود کیا گیا تھا تاہم بلوچستان کو 1971 میں صوبے کا سٹیٹس ملا۔ بلوچستان کی سرحدی تقسیم پر غور کیا جائے تو تینوں صوبوں سے ملحقہ بلوچستان بین الاقوامی سرحدوں پر ایران اور افغانستان کا ہمسایہ بھی ہے جن سے بلوچستان کے لسانی بنیادوں پر قریبی معاملات بھی اس خطے کے مسائل کو مزید گھمبیر بنا دیتے ہیں۔
ڈیورنڈ لائن سے جب جب افغانستان میں عدم استحکام ہوا تو اثرات بلوچستان پر بھی اثر انداز ہوتے رہے ہیں۔ پاکستان کی جانب سے 308 چیک پوسٹ جبکہ افغانستان کی 52 چیک پوسٹس خطے میں لا اینڈ آرڈر کو یقینی بنانے کے لیے قائم ہیں۔
دوسری جانب بڑی تعداد میں بلوچ آبادی پر مشتمل ایران کے صوبہ سیستان میں لسانی اور معاشرتی پہلووں کے ساتھ ساتھ پاک ایران تجارت بھی ایک کلیدی حیثیت رکھتی ہے، دونوں جانب قبائل کی تقسیم اور پاک ایران 909 کلومیٹر بارڈر پر پاکستان کی جانب سے 102 جبکہ ایران کی طرف سے 39 چیک پوسٹ خطے میں طاقت کا توازن برقرار رکھنے میں مصروف عمل ہیں۔
لسانی و قبائلی تقسیم کی بلوچستان میں ہی بات کی جائے تو بلوچ قبائل میں ہی 16 منقسم قبیلے اور نو منقسم گاوں ہیں۔ بلوچستان کو نظر انداز کرنے کا سلسلہ نیا نہیں، یہ چند سالوں کا قصہ یا کچھ دہائیوں کی بات نہیں، برصغیر کی تقسیم سے قبل بھی اسے نظر انداز کیا جاتا رہا ہے، اور اب بھی وفاق ہو یا خود صوبائی حکومت، یہی سلسلہ جاری ہے۔
بلوچستان پر خاص توجہ تو درکنار ریسورس ایلوکیشن سمیت صوبے کے لیے مختص ترقیاتی فنڈز میں بھی واضح فرق رہا۔ پاکستان کے 30 میں سے 23 پسماندہ اضلاع یہاں ہیں۔ جغرافیائی نقطہ نظر میں رقبے کے لحاظ سے بلوچستان سب سے بڑا صوبہ ضرور ہے لیکن انفراسٹرکچر نہ ہونے کے برابر، ناموافق صورتحال، سڑکیں ہیں نہ ذرائع نقل و حمل و آمد و رفت، غیر موزوں حالات وسائل کی عدم دستیابی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
ترقی نہ ہونے کے برابر ہے اور وسائل کا تخمینہ لگانا بھی مشکل ترین امر ہے۔ مقامی لیڈر شپ متحد ہے نہ سنجیدہ، وہ بس یہی سوچتے ہیں کہ اگر عوام خوشحال ہوگئے تو ان کا کیا ہو گا، کل کو یہی لوگ ان کے روبرو آن کھڑے ہوں گے نواب، خان، سردار کبھی بھی ترقی اور خوشحالی نہ ہونے کے خواہاں ہیں۔ یہ بڑی رکاوٹ ہے۔
پاکستان میں شرح خواندگی 68 فیصد ہے تو بلوچستان میں 37 فیصد ہے جو شہری علاقوں پر محیط ہے، پسماندہ، دور افتادہ علاقوں کا تو تذکرہ ہی نہیں جبکہ خواتین میں یہ شرح گر کر 17 فیصد تک باقی رہ جاتی ہے۔
اچھے ٹیچرز نہیں، سیاسی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں تاہم قبائلی نظام کی جڑیں بہت مظبوط ہیں۔ شادی بیاہ کے معاملات ہو یا خانگی مسائل۔ متنازع معاملات ہوں یا ووٹرز، ٹیکسز، لا اینڈ آرڈر کے معاملات، ریاست کی ذمہ داریاں بھی قبائلی سرداروں کے سپرد ہیں۔ علاقوں کا کنٹرول قبائلی سرداروں کے ہاتھ ہے۔
قبائل ایک دوسرے کے مفادات کو تحفظ بھی فراہم کرتے ہیں۔ بلوچستان کو بڑے درپیش چیلنجز میں دہشتگردی، قوم پرستی، پسماندگی، بے روزگاری، ہتھیاروں کی سمگلنگ شامل ہیں جبکہ ان میں ملوث بی ایل اے، بی آر اے، بی ایل ایف، یو بی اے، لشکر بلوچستان، لشکر جھنگوی، جیش السلام، داعش اور ٹی ٹی پی سر فہرست ہیں، انتہا پسند تنظیمیں ٹارگٹ کلنگ، اغوا، کرپشن، فرقہ پرستی بنیادوں پر قتل و غارت گری میں ملوث ہیں۔
بیڈ گورننس بھی بلوچستان کا ایک بڑا مسئلہ ہے جس میں بیرونی ایکٹرز کا کردار اہم ترین ہے جو بلوچستان کے مسائل کو ہوا دینے میں کار فرما ہیں۔ انسرجینسیز یعنی بغاوت کی تحریکوں کا جائزہ لیا جائے تو ان تحریکوں کی داغ بیل اکبر بگٹی، عطا اللہ مینگل اور خیر بخش مری کے عام انتخابات کے بائیکاٹ سے ہوئی۔ مری بگٹی اور خضدار میں فراری کیمپس کا قیام بغاوت کی پرزور تحریکیں ثابت ہوئیں۔
2002-2004 کے درمیان راکٹ حملے، چینی انجینیئرز ٹارگٹ کلنگ، سکیورٹی فورسز اور قومی سلامتی اداروں پر حملے، جنرل مشرف پر حملہ، آئی جی ایف سی ہیلی کاپٹر حملہ، ڈاکٹر شازیہ کیس اور 2006 میں اکبر بگٹی کا قتل اس دور کی بڑی شہ سرخیاں رہیں۔
بغاوت کے جذبات کو ہوا دی گئی اور یہ نعرہ زبان زد عام ہوا کہ آزاد بلوچستان قائم کیا جائے، 9/11 کے اثرات نے جہاں افغانستان کو متاثر کیا وہیں اثرات پڑوس میں بلوچستان پر بھی آئے، لاقانونیت کو ہوا دینے کے لیے پاکستان مخالف عناصر کا کردار اہم رہا، مسلح عسکریت پسند جتھوں نے نوجوانوں کی ذہن سازی کرنا شروع کی جن کا مقصد صرف ریاست مخالف جذبات ابھارنا تھا۔
مسلح تنظیموں کا جائزہ لینے کی بات کریں تو بی ایل اے ہربیار مری، بی آر اے براہمداغ بگٹی، بی ایل ایف ڈاکٹر اللہ نذر، بی این ایم ڈاکٹر منان، یو بی اے زمان مری جبکہ لشکر بلوچستان جاوید مینگل کے اشاروں پر کارروائیوں میں مصروف ہیں، یہ مسلح تنظیمیں بلوچستان کے مسائل کو غیر ضروری ہوا دینے میں کار فرما ہیں۔
مسلح افواج، سکیورٹی اداروں، انٹیلیجنس، ریاست حامی افراد، محب وطن بلوچ و غیر بلوچ، سیٹلرز، پنجابی، ہندوؤں پر حملوں، مسلکی بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ، قانون نافذ کرنیوالے اداروں پر حملوں میں ملوث ہیں۔ قومی حساس تنصیبات اور ملٹری اثاثوں پر حملے ان کے ریڈار پر رہے ہیں۔
یہ اپنے درمیان ان افراد کو نشانہ بنانے، جن پر غداری یا محب الوطنی کا شبہ ہو، یا اپنے مختلف دھڑوں میں دلچسپی کا اظہار کرنے والے افراد کا خاتمہ کرتے ہیں اور الزام سکیورٹی فورسز اور حکومت پر لگاتے ہیں تاکہ عام لوگوں میں حکومت مخالف جذبات کو مزید ہوا مل سکے۔
بھتہ خوری، اغوا، اغوا برائے تاوان میں ملوث یہ عناصر پروپیگنڈہ اور بیانہ کی جنگ میں تیز رفتاری سے سفر طے کررہے ہیں۔ ان کا بیانہ فوج کے خلاف، انٹیلیجنس اداروں کے خلاف، ایف سی کے خلاف ہے۔ ان کا ریاست مخالف ایجنڈا بڑا واضح ہے، مارو اور قتل کا الزام حکومت کے سر ڈال دو۔
متحارب گروپوں سے ہٹ کر مختلف تنظیموں کی بات کریں تو بی ایس او کا قیام 1961 میں ہوا جب ورنا وانندہ گال کے نام سے بلوچ طلبہ نے یوتھ ایجوکیشن فورم قائم کیا جس کا مقصد بلوچستان کی زبان، تہذیب اور ثقافت کا فروغ تھا۔
26 نومبر 1967 کو ورنا وانندہ گال کو بی ایس او میں تبدیل کردیا گیا، 1986 میں یہی بی ایس او دو دھڑوں میں تقسیم ہو گئی، ایک دھڑے کو یٰسین بلوچ کی قیادت ملی جبکہ دوسرے دھڑے کو قہور بلوچ نے لیڈ کیا، 2001 میں اسی بی ایس او کا ایک اور دھڑا منظر عام پر آیا۔ بی ایس او آزاد جس کی سربراہی اللہ نذر نے کی۔
2006 میں ان تینوں دھڑوں کا ملاپ ہوا تاہم ان کے نظریاتی اختلاف برقرار رہے اور بالاخر اتحاد دو ماہ میں اختتام پذیر ہو کر نظریاتی بنیادوں پر منقسم ہوگیا۔ ایک بی ایس او پی۔ پجار دوسری بی ایس او ایم۔ محی الدین اور تیسری بی ایس او آزاد کے نام سے ماخوذ ہوئی۔
بی ایس او پی کی سربراہی امین بلوچ نے کی جو نیشنل پارٹی کے ساتھ منسلک ہے۔ بی ایس او ایم نے بی این پی ایم کے ساتھ اتحاد کیا جسے آج کل نذیر بلوچ ہیڈ کررہے ہیں۔ جبکہ بی ایس او آزاد کی سربراہی اللہ نذر ہی کرتے آ رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اللہ نذر کا نظریہ سب سے خطرناک ہے جو آزاد بلوچستان کے حامی ہیں، یہ پاکستان مخالف ہیں اور ہمیشہ بلوچستان کی پاکستان سے علیحدگی کی بات کرتے آئے ہیں۔ بی ایس او آزاد کا بنیادی مقصد نوجوانوں میں احساس محرومی کو اجاگر کرکے ان کے ریاست مخالف جذبات کو بھڑکانا ہے، ان نظریات کے حامل افراد کی بڑی تعداد کالجز یونیورسٹیز، مدارس حتی کہ سکولز میں بھی ہے اور حیران کن حد تک صرف طلبا ہی نہیں اساتذہ بھی ان نظریات کے حامل ہیں۔
بلوچستان میں سیاسی حکومتوں نے ہمیشہ اپنے استحکام کے لیے سرداروں کی خوشنودی حاصل کی، اپنا سیاسی کنٹرول اور اثر رسوخ قائم رکھنے کو ترجیح دی، ووٹ بنک کے استحکام کی تگ و دو میں مصروف عمل رہے۔
بلوچستان بیوروکریسی بھی مسائل سے دوچار ہے، اول تو کوئی قابل افسر وہاں جانے کے لیے تیار نہیں اور اگر کوئی ہیں بھی تو انہیں شدید خطرات لاحق ہیں جس کی وجہ سے گورننس کے بے تحاشہ مسائل ہیں۔
بلوچستان کا 84 فیصد ایریا غیر ترقی یافتہ، غیر مستحکم شمار کیا جاتا ہے۔ تاریخی جغرافیائی، لسانی اور قبائلی تقسیم کے تناظر میں لاپتہ افراد کی گمشدگی کا مسئلہ اہم ترین اور توجہ طلب مسئلہ ہے لیکن اس کی آڑ میں کچھ افراد کچھ مسلح گروہ کچھ عسکریت پسند تنظیمیں اگر ان ناکردہ گناہوں کا بوجھ بھی حکومت کے سر تھوپنے کا ارادہ رکھتی ہیں تو اس کی بیخ کنی کرنا بحیثیت امن پسند پاکستانی، محب وطن شہری اور فرض شناس صحافی میرا اور آپ سب کا فرض ہے۔
کسی کو بھی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ معصوم شہریوں کو جبری گمشدہ یا لاپتہ کرنے میں کردار ادا کرے، جبری گمشدگیوں کا جاری سلسلہ رکنا چاہیے، لاپتہ افراد کا پتا لگایا جانا چاہیے، اس مسئلے کی آڑ میں ریاست مخالف سرگرمیوں کی بھی کسی صورت اجازت نہیں دی جا سکتی۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔