بلوچستان کے علاقے خضدار کے علاقے باغبانہ ہناری میں قائم ایک سکول میں واحد استاد محمد شریف پورے پرائمری سکول کے طلبہ کو تعلیم کے ہنر سے اکیلے ہی آراستہ کر رہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ انہیں سب سے بڑا مسئلہ اساتذہ کی کمی کا ہے۔
بقول محمد شریف: ’میں اکیلے ہی پورے پرائمری سکول کو پڑھاتا ہوں اور 100 سے زائد بچوں کے لیے میرے پاس چار گھنٹے ہوتے ہیں۔ چار گھنٹوں کو 100 بچوں پر تقسیم کرتا ہوں تو ہر بچے کے لیے دو منٹ چند سیکنڈز ہوتے ہیں۔ اس دو منٹ میں ایک بچے کو پانچ مضامین میں اکیلے کیسے پڑھا سکتا ہوں؟‘
گذشتہ ماہ یونیسیف کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں قائم چار ہزار سکولوں میں بیت الخلا کی سہولت موجود نہیں ہے اور ان میں لڑکیوں کے سکولوں کی تعداد زیادہ ہے۔
رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ چھ ہزار 700 سکولوں میں صرف ایک استاد موجود ہے اور سہولیات اور اساتذہ کی کمی کی وجہ سے تعلیم پر منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔
صوبائی حکام کے مطابق ہر سال اساتذہ ریٹائر ہوجاتے ہیں اور نئی بھرتیوں کا عمل کافی سست روی کا شکار ہے۔ 2019 سے کسی ایک ٹیچر کو بھرتی نہیں کیا گیا۔
کلاس دوئم کی طالبہ صبیحہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’ہمارے سکول میں پینے کے لیے پانی، بیت الخلا اور چار دیواری کی سہولت بھی دستیاب نہیں ہے ہم بڑی مشکل سے ایک کلاس میں بیٹھتے ہیں اور جن کو جگہ نہیں ملتی وہ مجبوراً دھوپ میں بیٹھتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہمارے ایک استاد ہیں اور ہمیں مزید اساتذہ کی اشد ضرورت ہے۔‘
بلوچستان کے تمام اضلاع میں تعلیم زبوں حالی کا شکار ہے۔ صوبائی محکمہ تعلیم کے اعداد و شمار کی 2022 کی رپورٹ کے مطابق صوبے کے 15 ہزار 96 سکولوں میں سے تین ہزار 152 سکول بند پڑے ہیں جبکہ باقی سکولوں کا بھی کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
رپورٹ کے مطابق صوبے کے پانچ ہزار 571 سکولوں میں صرف ایک استاد موجود ہے جبکہ ایک ہزار 910 سکول شیلٹر لیس ہیں جہاں بلڈنگ، چاردیواری اور چھت بھی دستیاب نہیں ہے۔
دوسری جانب پہاڑی علاقوں میں تعلیم کا نام ونشان تک موجود نہیں اور نہ ہی حکومت کے پاس تعلیم کی فراہمی کے لیے کوئی حکمت عملی موجود ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ صوبے کے سکولوں میں 11 لاکھ 19 ہزار 825 طالب علم زیر تعلیم ہیں۔
حالیہ مردم شماری کے مطابق پاکستان میں سوا دو کروڑ سے زائد بچے سکول جانے کی عمر میں سکول جانے سے محروم ہیں۔
رپورٹ کی مطابق صوبے میں 10 سال سے زائد عمر والوں میں خواندگی کا تناسب 43.58 فیصد ہے۔ مردوں کی خواندگی کا تناسب 54.15 فیصد ہے جبکہ خواتین کی خواندگی کا تناسب 31.89 فیصد ہے۔
محکمہ ایجوکیشن کی لائیو مانیٹرنگ ویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق سکولوں میں صرف 39 فیصد سہولیات دستیاب ہیں جبکہ انتظامیہ کی جانب سے صرف 18 فیصد سکولوں کا دورہ کیا جاتا ہے۔ بنیادی مسائل میں پانی کا مسئلہ اہم ہے اور صرف 18.8 فیصد سکولوں میں ہی پانی کی سہولت دستیاب ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گورنمنٹ بوائز پرائمری سکول بھٹار باغبانہ ضلع خضدار کے سکول میں واحد استاد طارق علی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں مزید بتایا: ’میرے سکول کی چھ کلاسز میں بچوں کی تعداد 100 سے زیادہ ہے۔ ہم حکومت، سیکریٹری ایجوکیشن، ڈائریکٹر ایجوکیشن سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ان مسائل کو حل کریں اور بچوں کی تعلیم کے لیے داد رسی کریں۔‘
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کی حالیہ رپورٹ کے مطابق صوبے کے 59 فیصد بچے سکول سے باہر ہیں۔ پانچ سال کی عمر میں 57.6 فیصد بچوں نے کبھی سکول نہیں دیکھا ہے جبکہ باقی 42.64 فیصد بچوں نے رسمی تعلیم حاصل کی ہے۔
سماجی کارکن عارف بلوچ کا کہنا ہے کہ ’ہمارے علاقے میں تعلیم پسماندگی کا شکار ہے۔ کئی ایسے سکول ہیں جہاں کسی مقامی یا زمیندار کی چھتوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔ شیلٹر لیس سکول موسم خراب ہونے کے باعث ہر دوسرے روز بند ہوتے ہیں۔‘
بلوچستان ایجوکیشن مینیجمنٹ اینڈ انفارمیشن سینٹر کے مطابق سکولوں کی عمارتیں 54 فیصد جزوی طور پر متاثر جبکہ 10 فیصد مکمل تباہ اور چھ فیصد تباہ اور پُرخطر ہیں اور صرف 19 فیصد سکول ہی محفوظ ہیں۔
متاثرہ سکولوں میں 17 فیصد کی کلاسیں مکمل تباہ ہیں۔ 38 فیصد کلاسیں جزوی طور پر متاثر ہیں جہاں بچوں کو مجبوراً کلاسیں لینا پڑتی ہیں۔
ضلعی ناظم تعلیم خضدار نیاز اللہ سمالانی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اساتذہ کی کمی کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ضلعے میں ایک ہزار ٹیچنگ اسامیاں خالی ہیں حکومت کی جانب سے خالی اسامیوں کا اعلان کیا گیا ہے، جب اسامیاں باقاعدہ طور پر بھر جائیں گی تو سکول بحال ہوں گے اور سکول سے باہر بچے سکولوں کا رخ کریں گے۔ ضلع خضدار میں اگر 150 سے زائد سکول غیر فعال ہیں تو ان کی بحالی سے آٹھ سے دس ہزار بچوں کو تعلیم فراہم ہوگی۔‘
صوبے میں شرح تعلیم کی پسماندگی کو حکام بالا بھی تسلیم کرتے ہیں۔
سیکریٹری ایجوکیشن بلوچستان عبدالرؤف بلوچ نے انڈپنڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ’صوبے میں 81 فیصد پرائمری سکول ہیں، جن میں سے 50 فیصد سکول سنگل ٹیچرز پر مشتمل ہیں۔ سنگل ٹیچر اگر کسی ایمرجنسی میں غیر حاضر ہوجائے تو سکول غیر فعال ہوجاتا ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’کئی سال سے تعیناتی کا عمل رکا ہوا تھا۔ اس سال ابتدا میں حکومت کی جانب 10ہزار ٹیچنگ اسامیوں کا اعلان ہوا، تعیناتی مراحل کے دوران عدالت میں کیس درج ہوا جو زیر سماعت ہے۔‘
بقول عبدالرؤف بلوچ: ’مشکلات ضرور ہیں مگر ہماری کوشش ہے کہ زیادہ سے زیادہ سکول فعال ہوں جبکہ یونیسیف کے تعاون سے سیلاب سے متاثرہ سکولوں کی بحالی کے لیے بلوچستان کے 32 اضلاع میں کام جاری ہے۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔