پاکستان کرکٹ نے گذشتہ دس سال میں سب سے زیادہ جس کھلاڑی کی کمی محسوس کی ہے وہ ایک مستند اور حوصلہ مند آل راؤنڈر ہے۔
عبدالرزاق کی ریٹائرمنٹ کے بعد سے پاکستان کو آل راؤنڈر کی تلاش تھی لیکن حالیہ پاکستان بمقابلہ آسٹریلیا سیریز کے بعد ایسا لگتا ہے کہ وہ محرومی ختم ہوچکی ہے۔
شمالی پنجاب کے شہر میانوالی نے بہت سے معروف کرکٹر کو جنم دیا ہے لیکن جو شہرت اور عزت عمران خان کے حصے میں آئی ہے دنیا میں بہت کم کھلاڑیوں کو ملی ہے۔
اگرچہ سابق کپتان مصباح الحق اور شاداب خان کا تعلق بھی میانوالی سے ہے لیکن عمران خان کی ہمسری شاید ہی کوئی کرسکے۔
کرکٹ کے حوالے سے 1996 کا سال پاکستان میں ورلڈکپ کا سال تھا لیکن اسی سال جولائی میں پیداہونے والے عامر جمال نے ورلڈکپ تو نہیں دیکھا مگر اپنے پہلے تین میچوں میں ہی ورلڈ کلاس کرکٹر کا سکہ جما دیا ہے۔
پرتھ کے پہلے ٹیسٹ میں جب اپنے کیرئیر کا آغازکررہے تھے تو کسی کو امید نہیں تھی کہ وہ رنگ جما دیں گے کیونکہ آسٹریلیا میں پاکستانی کھلاڑیوں کی کارکردگی واجبی سی ہوتی ہے۔ لیکن عامر نے اپنے رنگ سے دنیائے کرکٹ کو متوجہ کرلیا۔
عامر جمال نے اپنی کرکٹ کا آغاز تو جونئیر سطح کی انڈر 19 لیگ سے کیا لیکن شہرت انہیں نوجوانی میں ملی انہیں 2015 میں کسی شناسا کے توسط سے ہاکسبری کرکٹ کلب سڈنی سے کلب کرکٹ کھیلنے کا موقع مل گیا۔
ہاکسبری کلب سڈنی کا ممتازکلب ہے اور شہر کے وسط میں اس کے میچ ہوتے ہیں جب 2016 میں پاکستان نے آسٹریلیا کا دورہ کیا تو سڈنی میں جنرل نشستوں پر میچ دیکھتے ہوئے عامر نے مذاق میں ساتھیوں سے کہا تھا ایک دو سال بعد وہ یہاں پاکستان کی نمائندگی کریں گے تو سب ہنسنے لگے۔
لیکن 2024 کے ابتدائی ایام میں وہ اسی اینڈ سے ٹیسٹ میچ میں بولنگ کررہے تھے جہاں سے 1976 میں عمران خان نے چھ کھلاڑی آؤٹ کیے تھے اور تمام دن بولنگ کرتے ہوئے ان کی قمیص پھٹ گئی تھی۔
عامر جمال نے جب سڈنی لیگ میں زبردست بولنگ کی تو 2017 میں پاکستان آ گئے کہ ڈومیسٹک کرکٹ کھیل سکیں لیکن انھیں سفارشی حلقوں نے کسی ٹیم تک رسائی نہیں دی۔
انہیں کسی ڈسٹرکٹ لیول کی ٹیم نے بھی منتخب نہیں کیا۔ وہ مایوس ہوگئے اور انگلینڈ چلے گئے جہاں گرمیوں میں کلب کرکٹ کھیل کر کچھ پیسے جمع کیے اور سردیوں میں واپس آکر قرضے پر ایک ٹیکسی خرید لی۔
اسلام آباد کی سڑکوں پر راتوں کو ٹیکسی چلانے لگے۔ شاید انہیں اندازہ ہوگیا کہ اس ملک میں ٹیلنٹ کی قدر نہیں ہے اور روزگار کے لیے کچھ کرنا پڑے گا۔
وہ دن میں کلب کرکٹ کھیلتے تھےاور رات کو ٹیکسی چلاتے جہاں ان پر پی ٹی وی کے ایک کوچ کی نظر پڑ گئی جو انہیں فرسٹ کلاس کرکٹ تک لے گئے۔ 2018-19 میں پی ٹی وی کی طرف سے ملتان کے خلاف ان کے کیرئیر کاآغاز ہوگیا وہ پہلے دن سے بولر اور بلے باز دونوں ہی تھے۔
ان کی جارحانہ انداز کی بیٹنگ کے سبب وہ 2021 میں انہیں ناردرن ٹیم کی طرف سے پاکستان کپ میں موقع ملا۔
پاکستان کپ میں کارکردگی کی بنیاد پر انہیں انگلینڈ کے خلاف ٹی ٹوئنٹی میچ میں منتخب کرلیا گیا جہاں سے ان کے انٹرنیشنل کیرئیر کا آغازہوگیا۔
اس دوران پشاور زلمی کے کوچ محمد اکرم نے جب ان کی بولنگ دیکھی تو انہیں زلمی کی ٹیم میں شامل کرلیا جہاں 2023 میں پی ایس ایل میں اپنے کیرئیر کاآغاز کردیا۔
اگرچہ پی ایس ایل میں کوئی خاص کارکردگی نہیں دکھا سکے لیکن وہ سیلیکٹرز کی نظروں میں آ گئے اور افغانستان کے خلاف ٹی 20 سیریز میں قومی ٹیم کے لیے منتخب کرلیا گیا۔
عامر جمال نے اب تک چار ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچ کھیلے ہیں۔
ٹیسٹ کرکٹ کا آغاز
عامر جمال کے لیے اعزاز کی بات تھی کہ وہ آسٹریلیا کے دورے کے لیے منتخب ہوئے۔ پرائم منسٹر الیون کے خلاف ان کی تیز بولنگ نے ٹیم مینجمنٹ کو مجبور کردیا کہ پرتھ کے پہلے ٹیسٹ میں شامل کریں۔
پرتھ ٹیسٹ میں 27 سالہ عامر جمال نے ساری دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کروا لی اور اپنے پہلے ہی ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں چھ وکٹیں لے کر وہ ایک مستند فاسٹ بولر کے طور پر سامنے آئے۔ پاکستان پرتھ ٹیسٹ ہار گیاتھا لیکن عامر جمال نے میچ میں سات وکٹ لے کر اپنی کارکردگی کو زندہ رکھا۔
میلبرن ٹیسٹ میں انہوں نے ایک بار پھر عمدہ بولنگ کی اور دونوں اننگز میں مجموعی طور پر پانچ وکٹ لیے اس ٹیسٹ میں انہوں نے 33 رنز کی اننگز بھی کھیلی۔
عامر جمال کے لیے سڈنی ٹیسٹ میچ ایک طرح سے ہوم ٹیسٹ تھا کیونکہ وہ کافی عرصہ سڈنی میں کلب کرکٹ کھیل چکے ہیں۔
سڈنی ٹیسٹ میں وہ ایک حقیقی آل راؤنڈر کی حیثیت سے سامنے آئے پہلے تو پہلی اننگز میں بے مثال بیٹنگ کی اور 82 رنز کی اننگز کھیلی۔
انہوں نے آخری وکٹ کے لیے میر حمزہ کے ساتھ 86 رنز کی قیمتی پارٹنرشپ کرکے پاکستان کی بیٹنگ کو مکمل تباہی سے بچا لیا اور پھر بولنگ میں وہ خطرناک بولر بن گئے۔
عامر نے 69 رنز دے کر چھ وکٹ لیے جن میں آخری تین وکٹ صرف چار رنز دے کر لیے۔ ان کی خطرناک بولنگ کی بدولت پاکستان سیریز میں پہلی دفعہ اننگز میں برتری حاصل کر سکا۔
لیکن ان کی اس محنت پر پاکستانی بلے بازوں نے پانی پھیر دیاورنہ پاکستان سڈنی میں تاریخ بدل سکتا تھا۔
عامر نے دوسری اننگز میں بھی جدوجہد کی اور محمد رضوان کے ساتھ 40 رنز کی پارٹنرشپ لیکن وہ بڑا سکور نہ کرسکے۔ اور پاکستان اپنی بیٹنگ کی ناکامی پر میچ ہار گیا۔
عامر جمال کو ان کی آل راؤنڈ کارکردگی پر پلیئر آف دی میچ قرار دیا گیا۔ انہوں نے ڈیبیو سیریزمیں تین ٹیسٹ میچوں میں 18 وکٹیں لے کر ایک نیا ریکارڈ قائم کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وہ ڈیبیو سیریز میں سب سے زیادہ وکٹ لینے والے بولر بن گئے جبکہ عمران خان اور وسیم اکرم کے بعد تیسرے کھلاڑی ہیں جس نے ایک ٹیسٹ میچ میں چھ وکٹ لیے اور نصف سنچری بنائی۔
عامر جمال نے تین ٹیسٹ میچوں میں بیٹنگ میں 143 رنز بنائے۔ اور بولنگ میں 18 وکٹ لیے۔
عامر جمال جو اگرچہ نوجوان تو نہیں ہیں اور 27 سال کی عمر میں بہت تاخیر سے انہیں ٹیسٹ میچ کھیلنے کا موقع ملا ہے لیکن کرکٹ ماہرین انہیں پاکستان کے چند بہترین آل راؤنڈرز میں شمار کررہے ہیں۔
اگر انہیں تسلسل سے مواقع ملے تو کچھ بعید نہیں کہ پاکستان کو عبدالرزاق کے بعد ایک قابل اعتماد آل راؤنڈر مل جائے۔
عامر جمال کی سب سے خاص بات ان کی بولنگ رفتارہے جو ایک آل راؤنڈر ہونے کے باوجود کسی بھی مستند فاسٹ بولر سے کم نہیں ہے وہ پاکستان کے واحد بولر تھے جو 140 کلومیٹر سے زائد رفتار سے بولنگ کرتے رہے۔
پاکستان کی شکستوں کے باوجود عامرجمال کو اس سیریز کی دریافت کہا جارہا ہے۔ ان کی بولنگ میں عمران خان جیسی کاٹ اور عبدالرزاق جیسی ہارڈ ہٹنگ بیٹنگ کے جوہر ہیں۔
وہ ایسے کھلاڑی ہیں جو ہمیشہ سو فیصد کارکردگی دکھاتے ہیں اور جیت کا عزم لے کر کھیلتے ہیں اسی لیے ایک بھرپور اور شاندار کیرئیر ان کا مستقبل بن سکتا ہے۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔