افغانستان کے وزیرخارجہ امیر خان متقی کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن کا دورہ افغانستان پاکستان اور افغان عوام کے لیے فائدہ مند ثابت ہو گا۔
اتوار کو رات گئے ایکس پر پوسٹ کیے جانے والے ایک ویڈیو پیغام میں انہوں نے کہا کہ ’مولانا فضل الرحمٰن اور ان کے وفد کا دورہ افغانستان سلامتی اور معیشت کے اعتبار سے دونوں ممالک کے عوام کے لیے فائدہ مند رہے گا۔‘
د بهرنیو چارو سرپرست وزیر مولوي امیرخان متقي صاحب وايي، چې افغانستان ته د پاکستان د جمعیت علمای اسلام ګوند د مشر مولانا فضل الرحمن او مل پلاوي سفر به د دواړو هېوادونو ولسونو لپاره د امن او اقتصاد په برخه کې ګټور تمام شي. pic.twitter.com/VEmiXOYUGM
— امان افغان (@amanafghan111) January 7, 2024
پاکستان کے سیاسی رہنما اور جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اتوار کو اہم دورے پر کابل پہنچے تھے جہاں ان کی افغانستان کی عبوری انتظامیہ کی اعلی قیادت سے ملاقاتیں ہوئی ہیں۔
جے یو آئی نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر بتایا کہ مولانا فضل الرحمٰن نے وفد کے ہمراہ کابل میں ئانب وزیر اعظم مولوی عبدالکبیر سے ملاقات کی، جس میں افغان وزیر خارجہ مولوی امیر متقی، سینیئر رہنما مولوی عبدالطیف منصور و دیگر رہنما بھی موجود تھے۔
پارٹی کے ترجمان اسلم غوری کے مطابق مولانا فضل الرحمٰن کے ہمراہ وفد میں مولانا عبدالواسع، مولانا صلاح الدین، مولانا جمال الدین اور مولانا سلیم الدین شامزئی، مولانا کمال الدین، مولانا ادریس، مولانا امداد اللہ اور مفتی ابرار شامل ہیں۔
ترجمان جے یو آئی کے مطابق مولانا فضل الرحمٰن نے افغانستان کے نائب وزیر اعظم مولوی عبدالکبیر سے گفتگو میں کہا کہ مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے اور دونوں ملکوں کو مختلف شعبوں میں باہمی تعاون پر بات کرنی چاہیے۔
کابل :جےیوآئی سربراہ مولانا فضل الرحمان کی نائب وزیراعظم مولانا عبدالکبیر سے ملاقات
— Jamiat Ulama-e-Islam Pakistan (@juipakofficial) January 7, 2024
افغان وزیر خارجہ مولوی امیر متقی ، مولوی عبد الطیف منصور ودیگر موجود pic.twitter.com/tQOZdiNp15
مولوی عبدالکبیر نے امید ظاہر کی کہ مولانا کا دورہ کابل افغانستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات کو مضبوط بنانے اور غلط فہمیوں کو دور کرنے میں کارگر ثابت ہو گا۔ انہوں نے افغان پناہ گزینوں کے ساتھ حسن سلوک اور سوویت مخالف جنگ کے دوران افغانوں کی مدد پر پاکستان کا شکریہ ادا کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن اور ان کے وفد کو یقین دلاتے ہیں کہ وہ خطے میں امن و استحکام چاہتے ہیں۔ کسی کو افغانستان کی سرزمین کسی کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
ہفتے کو ریڈیو آزادی سے گفتگو میں مولانا فضل الرحمٰن نے کہا تھا کہ ان کا دورہ کابل پاکستان کی نگراں حکومت کے ساتھ مل کر ہو گا اور اس کا مقصد حالیہ کشیدگی کے حوالے سے اسلام آباد کی پوزیشن واضح کرنا ہے۔
ٹی ٹی پی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمٰن نے مزید کہا کہ کابل میں ٹی پی پی بھی موضوع بحث ہو گی۔
مولانا فضل الرحمٰن پچھلی مرتبہ 10 برس قبل 2013 میں کابل گئے تھے جب وہاں حامد کرزئی کی حکومت تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہفتے کو اسلام آباد میں ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا تھا کہ انہیں دورے کی دعوت طالبان سربراہ کی منظوری سے دی گئی اور وہ ان سے ملیں گے۔
ایک سوال کہ کیا مولانا فضل الرحمٰن کے اس دورے سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی کم ہو گی؟ کے جواب میں کہا کہ ’اس کا انحصار پاکستان اور طالبان حکومت پر ہے، اگر وہ برادرانہ تعلقات چاہتے ہیں تو پیچیدہ معاملات بھی حل ہوسکتے ہیں لیکن اگر ارادہ نہیں تو چھوٹی باتیں بھی بڑی ہو سکتی ہیں۔‘
مولانا فضل الرحمٰن کے دورے سے چند روز قبل افغانستان کے ایک وفد نے پاکستان کا دورہ کیا تھا، جس میں افغان وزارت دفاع، اطلاعات اور انٹیلی جنس حکام شامل تھے۔
وفد کی قیادت سینیئر طالبان رہنما اور گورنر قندھار ملا شیرین اخوند نے کی تھی۔
اس سے قبل 13 دسمبر، 2023 کو افغانستان کے پاکستان میں تعینات عبوری سفیر سردار احمد جان شکیب نے جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات کی تھی اور انہیں دورہ کابل کی دعوت دی تھی۔
افغان دورے کی دعوت کی تصدیق افغان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بھی کی تھی۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔