چھ برس پہلے کی بات ہے، ہم اپنی چینی جامعہ کے کانووکیشن سینٹر میں ماسٹرز کے طالب علموں کا نیلا گاؤن پہنے بیٹھے تھے۔
ہمارے سامنے سٹیج پر ایک کے بعد ایک سرخ گاؤن پہنے پی ایچ ڈی کے طالب علم مسکراتے ہوئے اپنی ڈگری وصول کر رہے تھے۔
ہم اپنی باری کا انتظار کرتے ہوئے ان کے گاؤن کو حسرت سے دیکھتے ہوئے سوچ رہے تھے کہ کیا ہمیں بھی کبھی یہ گاؤن پہننا نصیب ہو گا؟
اس کے دو سال بعد ہمارا اسی جامعہ کے ایک پی ایچ ڈی پروگرام میں داخلہ ہو گیا اور اس کے چار سال بعد ہمیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مل گئی۔
پی ایچ ڈی کا وہ سرخ گاؤن جو ہم اپنی ماسٹرز کی گریجویشن کی تقریب سے پہننے کے خواہش مند ہیں، چھ ماہ بعد پی ایچ ڈی کی گریجویشن کی تقریب میں پہنیں گے۔
ہم اس دن کا ایسے انتظار کر رہے ہیں جیسے کچھ لوگ اپنے شادی کے دن کا انتظار کرتے ہیں۔
شادی کا جوڑا ہر کوئی پہن سکتا ہے۔ جو نہ بھی پہننا چاہیں انہیں زبردستی پہنا دیا جاتا ہے۔ لیکن پی ایچ ڈی کا گاؤن نہ ہر کوئی پہن سکتا ہے نہ ہی یہ گاؤن کسی کو زبردستی پہنایا جاتا ہے۔
اس گاؤن کو پہننے کے لیے سالوں محنت کرنی پڑتی ہے جس کا اجر پی ایچ ڈی کرنے کے کئی سال بعد جا کر ملتا ہے۔
جنہیں یہ گاؤن پہننا نصیب ہوتا ہے وہ جانتے ہیں کہ انہیں اس کے لیے کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ کئی جنگیں لڑنی پڑتی ہیں، ان گنت راتیں کام کرتے ہوئے گزر جاتی ہیں اور بہت سی راتیں اسی کام کو مٹا کر دوبارہ سے کرنے میں گزارنی پڑتی ہیں۔
بار بار سپروائزر سے ملنا اور اس سے بار بار وہی سوال پوچھنا، بہت سی کتابیں اور تحقیقی پرچے پڑھنا، پھر بھی اپنے ذہن میں موجود گتھی نہ سلجھا پانا اور پھر مایوس ہو کر سو جانا۔
پھر خود ہی اپنے آپ کو زبردستی بستر سے نکال کر کام پر مجبور کرنا اور ساتھ ہی ساتھ زندگی کے دیگر معاملات نبٹانا۔
پھر کہیں جا کر پی ایچ ڈی کا مقالہ تیار ہوتا ہے جس سے شاید ہی کوئی پی ایچ ڈی کرنے والا خوش ہوتا ہو۔
مقالہ جمع کرواتے ہوئے بھی اس میں دسیوں غلطیاں نظر آ رہی ہوتی ہیں۔ کہتے ہیں پی ایچ ڈی کا کوئی بھی مقالہ پرفیکٹ نہیں ہوتا۔ صرف جمع کروایا ہوا مقالہ پرفیکٹ ہوتا ہے۔
ہم نے بھی اپنے مقالے کو جیسے تیسے کر کے آخری تاریخ پر جمع کروا دیا تھا۔ اس کے بعد وہ مقالہ بلائنڈ ریویو کے لیے گیا۔
20 دن بعد ہمارے دیگر ساتھیوں کے بلائنڈ ریویوز کے نتائج آگئے۔ ہمارے نہیں آئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہم نے ڈیپارٹمنٹ سے رابطہ کیا تو ہمیں بتایا گیا کہ ہمارا مقالہ دو ریویورز نے پاس کر دیا ہے جبکہ تین ریویورز نے ریویو کے لیے ہی قبول نہیں کیا۔
ڈیپارٹمنٹ کے 30 سے زائد پروفیسروں کو ہمارا مقالہ بھیج چکا تھا لیکن ان میں سے کوئی بھی اسے ریویو کرنے کی ہامی نہیں بھر رہا تھا۔
وقت تیزی سے گزر رہا تھا۔ اگر ہمیں باقی کے ریویوز چند دن میں نہ ملتے تو ہمیں اپنی ڈگری کے لیے مزید چھ ماہ کا انتظار کرنا پڑتا۔ وہ وقت ہم نے جیسے کاٹا ہم ہی جانتے ہیں۔
ڈیپارٹمنٹ نے کچھ دن بعد ہمارا کیس یونیورسٹی کے گریجویشن سکول کو بھیج دیا۔ اس وقت تک ہم ہمت ہار چکے تھے۔
پھر جانے کیا ہوا۔ گریجویشن سکول نے کون سی جادو کی چھڑی گھمائی، 10 دن بعد ہمیں اپنے باقی کے تین ریویوز مل گئے۔
اس وقت ہم اتنا روئے کہ کیا بتائیں۔ ہم نے روتے ہوئے اپنے والد کا نمبر ملایا۔ ادھر بیل جا رہی تھی، ادھر ہماری ہچکیاں بندھ رہی تھیں۔
انہوں نے فون اٹھایا تو ہم بمشکل سانس لے رہے تھے۔ وہ گھبرا گئے۔ بولے، ’کیا ہوا، سب خیریت؟‘
ہم روتے ہوئے بولے، ’ہماری پی ایچ ڈی ہو گئی۔‘
پھر بس ڈھیروں دعائیں تھیں۔ ہمیں اپنی شادی پر بھی ڈھیروں دعائیں ملی تھیں، پر ہم انہیں سمجھ نہیں پا رہے تھے۔
لیکن اس وقت ہمارے والد ہمیں جو دعائیں دے رہے تھے، وہ ہمیں اپنے سامنے قبول ہوتی ہوئی نظر آ رہی تھیں۔
اس کے دو ماہ بعد ہمارا پی ایچ ڈی کا سفر اپنے اختتام کو پہنچا اور ہم پی ایچ ڈی کا سرخ گاؤن پہننے کے اہل قرار پائے۔
ہمارے لیے یہ سرخ گاؤن ہمارے شادی کے سرخ جوڑے سے زیادہ قیمتی ہے۔ اس جوڑے کے لیے ہمیں زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی تھی بلکہ برسوں اس جوڑے کو نہ پہننے کے بہانے تراشنے پڑے تھے۔
دوسری طرف اس گاؤن کا اہل بننے کے لیے ہمیں بہت محنت کرنی پڑی اور بہت سی قربانیاں دینی پڑیں۔
بہت سی عورتوں کے لیے ان کی شادی کا جوڑا ان کی زندگی کا قیمتی ترین لباس ہوتا ہے۔ ہمارے لیے وہ بھی قیمتی ہے لیکن اس سے زیادہ قیمتی یہ سرخ گاؤن ہے۔
اس کی اہمیت بس ہم جانتے ہیں یا وہ جنہوں نے اسے حاصل کیا ہے یا اسے حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اللہ مزید لڑکیوں کو یہ گاؤن پہننا نصیب کرے کہ شادی اچھا نصیب دے نہ دے، یہ گاؤن ہر لڑکی کو اچھا نصیب ضرور دیتا ہے۔
نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ارا پر مبنی ہے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔