سمندر پار پاکستانی اور سفارت کاری

ہر سول سرونٹ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ نامساعد حالات میں روایتی روش اختیار کرنے کی بجائے خود لیڈر شپ رول اپنائے اور اپنے رفقائے کار کے لیے باعث تقلید بنے۔

ایک اندازے کے مطابق 2013 میں سعودی عرب میں پاکستانیوں کی تعداد 20 لاکھ کے لگ بھگ تھی (اے ایف پی/ فائل فوٹو)

سفارت کاری میں بسا اوقات بڑی انہونی اور مشکل صورت حال کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے۔ اس لمحے اپنے ملک کی نمائندگی کرنے والے سفیر کو نہایت سوجھ بوجھ اور فراست کے ساتھ اپنے تجربے کی روشنی میں معاملات سنوارنے کی ذمہ داری نبھانی ہوتی ہے۔

اس میں نہ صرف اپنے ملک کے مفاد کا تحفظ یقینی بنانا ہوتا ہے بلکہ اتنا ہی اہم یہ ہوتا ہے کہ میزبان ملک کی قیادت بھی آپ کی معاملہ فہمی اور فراست کی قائل ہو جائے۔

مارچ 2013 میں میری سعودی عرب میں بطور سفیر تعیناتی کے دوران ایسی ہی ایک مشکل صورت حال کا سامنا کرنا پڑا، جب سعودی کابینہ نے اس وقت کے اندرونی اور بگڑتے ہوئے بیرونی حالات کے پیش نظر فیصلہ کیا کہ غیرملکی افرادی قوت، جو سعودی عرب میں کام کر رہی ہے، کو باقاعدہ ایک نئے نظام کے تحت درست کیا جائے۔

دوسری اہم وجہ سعودی نطقات پروگرام کا اجرا تھا، جس کے ذریعے تمام بزنسز اور کاروبار میں سعودی باشندوں کو ایک مخصوص تعداد میں نوکری دینا ضروری کر دیا گیا تھا۔ اس کے بغیر کسی قسم کے کاروبار کی اجازت نہ تھی۔

سعودی کابینہ کے فیصلے کے مطابق کوئی شخص اپنے کفیل کے علاوہ کہیں اور کام نہیں کر سکتا تھا۔ مزید یہ کہ نئے قوانین کے تحت جس پیشے پر سعودی عرب میں کوئی شخص داخل ہوا وہ صرف اسی پیشے پر کام کر سکتا تھا۔

یعنی ایک ڈرائیور کے ویزے پر آیا ہوا شخص صرف بطور ڈرائیور ہی اپنے کفیل کے ساتھ کام کرنے کا مجاز تھا۔

ان نئے قوانین کی وجہ سے لاکھوں ورکرز غیر قانونی کیٹیگری میں آ گئے، اس سے نہ صرف پاکستانی بلکہ انڈونیشیا، انڈیا، سری لنکا، بنگلہ دیش، نیپال، فلپائن اور دیگر کئی ممالک کی افرادی قوت بھی متاثر ہوئی۔

ان نئے قوانین کے اطلاق کے پیش نظر پکڑ دھکڑ شروع ہو گئی اور چند ہی دنوں میں ڈیپورٹیشن سینٹر بھرنا شروع ہو گئے۔

مجھے قونصل جنرل جدہ نے اطلاع دی کہ بہت بڑی تعداد میں غیر ملکیوں کو حراست میں لیا گیا ہے، جس میں پاکستانی شہری بھی شامل ہیں۔

سفیر کی ایک بنیادی ذمہ داری اس کی اپنے ملک کی کمیونٹی کی دیکھ بھال اور ان کے جائز حقوق کا دفاع کرنا ہوتا ہے۔

وہ اپنی کمیونٹی کا کسٹوڈین ہوتا ہے اور اپنی برادری کو دیار غیر میں ہر قسم کی امداد کرنا سفیر کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔

اسی کمیونٹی ویلفیئر کے تناظر میں پاسپورٹ و دیگر دستاویزات کی تصدیق اور باقی قونصلر سروسز کی بہتر سہولیات مہیا کی جاتی ہیں۔

میں ذاتی طور اس بات کا قائل رہا ہوں کہ سفیراور سفارت خانے کی اصل کارکردگی کا اندازہ کمیونٹی کی ان کے بارے میں رائے سے لگایا جا سکتا ہے۔

سعودی عرب میں پاکستانی کمیونٹی کے بارے میں بتاتا جاؤں کہ پاکستانیوں کی تعداد 2013 میں ہمارے اندازے کے مطابق 20 لاکھ کے لگ بھگ تھی۔

ہمارے لوگ وہاں پر ڈاکٹر، انجینیئر، چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ، ٹیچرز، آئی ٹی سپیشلسٹ، آرٹسٹ، میڈیا پرسن، مزدور اور کسان غرضیکہ ایک ’منی پاکستان‘ کی شکل میں موجود ہیں۔

سعودی عرب میں ہماری کمیونٹی دنیا بھر میں کسی بھی اور ملک سے زیادہ تعداد میں ہے۔ یہ پاکستانی کثیر تعداد میں زرمبادلہ پاکستان بھیجتے ہیں۔

جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2000 میں سعودی عرب سے پاکستانی کمیونٹی قریباً 30.9 کروڑ ڈالر سالانہ زرمبادلہ پاکستان بھیج رہے تھے اور 2013 میں رقم کی یہ ترسیل بڑھ کر 4.1 ارب ڈالر ہو گئی تھی۔

یہ کثیر زر مبادلہ پاکستان کی معیشت کے لیے انتہائی ضروری تھا اور یوں اگر پاکستانی کمیونٹی نئے قوانین کا شکار ہو جاتی تو لاکھوں کی تعداد میں انہیں گھر لوٹنا پڑتا اور معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہچتا۔

مجھے مقامی وزارت خارجہ اور گورنر ریاض کے دفتر سے معلوم ہوا کہ سعودی لیبر منسٹری کے نئے قوانین کا اطلاق ہو رہا ہے۔

میں نے اس سلسلے میں دیگر ممالک کے سفیروں (جن ممالک کے باشندے متاثر ہوئے تھے) سے بھی ایک مشترکہ لائحہ عمل بنانے کی کوشش کی لیکن مجھے وہ کوشش کامیاب ہوتی نظر نہیں آئی۔

اس وقت پاکستان میں ایک عبوری حکومت کا قیام عمل میں آ چکا تھا َاور سیاست دان الیکشن کی تیاری میں مصروف تھے۔ مجھے اس بات کا ادراک تھا کہ عبوری حکومت سے مدد کی امید رکھنا محض وقت کا ضیاع ہو گا۔

میرے لیے دو معاملات فوری طور پر حل طلب تھے۔ پہلا یہ کہ گرفتاریوں کو کسی طور پر رکوایا جائے اور حراست میں لیے گئے پاکستانیوں کو آزاد کروایا جائے۔

اس سلسلے میں، میں نے سعودی عرب کے مختلف صوبوں کے گورنروں سے ملاقاتیں کیں۔

میں یہ بتاتا جاؤں کہ سعودی فرمانروا اور شاہی خاندان کے افراد پاکستان اور پاکستانی عوام کے لیے بہت محبت اور خلوص کے جذبات رکھتے ہیں اور پاکستان کو ایک مضبوط، مستحکم اور خوشحال ملک دیکھنا چاہتے ہیں۔

میں نے ان ملاقاتوں میں موقف اپنایا کہ ہمارے باشندے سعودی عرب میں مروجہ پریکٹس کے مطابق کام کر رہے تھے، وہ کسی مجرمانہ فعل میں ملوث نہیں، اس لیے ہمیں وقت درکار ہے تاکہ ہم اپنے ہم وطن ورکرز کا سٹیٹس نئے سعودی قوانین کے مطابق کر سکیں۔

میرے اس نقطہ نظر کو سب گورنرز نے توجہ سے سنا۔ میں نے یہ درخواست بھی کی کہ ہمارے لوگوں کو رہا کیا جائے اور مزید لوگوں کو حراست میں نہ لیا جائے۔

اس سلسلے میں میں نے سعودی لیبر منسٹر سے بھی ملاقات کی اور ہر وہ دروازہ کھٹکھٹایا، جس کے کھلنے کی مجھے تھوڑی سی بھی امید تھی کہ شاید ہمارے نقطہ نظر کو پذیرائی مل جائے۔

ان مسلسل ملاقاتوں کے بعد مجھے اس بات کا احساس ہوا کہ کابینہ کے فیصلے میں لچک لانے کے لیے خادم حرمین شریفین شاہ عبداللہ بن عبد العزیز تک اپنی درخواست پہنچانی ہو گی۔

میں نے اس وقت کے نائب وزیر خارجہ پرنس عبدالعزیز بن عبداللہ سے ملاقات کی درخواست کی، جو شاہ عبداللہ کے صاحب زادے ہیں۔

اس ملاقات میں، میں نے پاکستان اور سعودی عرب کے دیرینہ برادرانہ تعلقات کا ذکر کیا اور یہ موقف اپنایا کہ پاکستانی حکومت اور عوام سعودی عرب سے محبت کا رشتہ رکھتے ہیں اور اس پاک سرزمین کی خدمت اور سعودی عرب کی تعمیر ترقی اور خوشحالی میں اپنے کردار پر فخر کرتے ہیں اور سعودی فرمانروا نے ہمیشہ پاکستان اور پاکستانی عوام سے محبت کا رشتہ قائم رکھا ہے اور ہر مشکل کی گھڑی میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔

میں نے کہا کہ ہر پاکستانی سعودی قوانین کی پابندی اور احترام کو اولین ترجیح دیتا ہے، ہماری درخواست خادمین حرمیں شریفین عبداللہ بن عبدالعزیز سے یہ ہے کہ ہمیں اپنے ورکرز کا سٹیٹس نئے قوانین کے مطابق درست کرنے کے لیے تین سے چھ ماہ کا وقت دیا جائے اور ہمارے باشندوں کو حراست میں لینے کا سلسلہ روک دیا جائے اور جو لوگ حراست میں ہیں انہیں رہا کر دیا جائے۔

پرنس عبدالعزیز نے میری درخواست کو، جو میں لکھ کر لایا تھا، شاہ عبد اللہ کے سامنے پیش کرنے کا وعدہ کیا۔ نتیجتاً ہم نے درخواست میں جو کچھ مانگا تھا شاہ عبداللہ نے اپنی روایتی محبت کا اظہار کرتے ہوئے اس کی منظوری دے دی۔

یوں ہمارے تمام لوگ جو حراست میں لیے گئے تھے، ان کو رہائی مل گئی اور مزید پکڑ دھکڑ کا سلسلہ بند ہو گیا۔

اب جو چیلنج ہمارے سامنے تھا کہ کس طرح اس رعایت سے فائدہ اٹھایا جائے۔ میں نے اس سلسلے میں دفتر کے تمام افسران کی میٹنگ میں اس معاملے پر لائحہ عمل مرتب کرنے کی کوشش کی۔

مجھے یاد آیا کہ واشنگٹن میں پوسٹنگ کے دوران اکثر کمپنیاں جاب فیئرز میں ریکروٹمنٹ کیا کرتی تھیں۔

اسی آئیڈیا کو استعمال کرتے ہوئے ہم نے شروع میں مختلف سعودی ریکروٹمنٹ کمپنیوں کو سفارت خانے میں بلوایا اور انہیں اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ دوسرے ملکوں میں جا کر ریکروٹمنٹ کرنے کی بجائے پاکستانی سفارت خانے میں آئیں، جہاں ہم انہیں مطلوبہ افرادی قوت مہیا کر دیں گے۔

یہ ان کے لیے بھی ایک پرکشش آفر تھی، چنانچہ ریکروٹمنٹ کا عمل ہمارے سفارت خانے سے شروع ہوا۔

اس کامیابی کو دیکھتے ہوئے ہم نے ایک وسیع پلان بنایا جس میں ہم نے میڈیا، سفارت خانے کی ویب سائٹ اور ٹی وی اور اخبارات کے ذریعے اپنا پیغام کمیونٹی تک پہنچایا کہ نئے قوانین سے متاثرین اپنے آپ کو سفارت خانے اور قونصلیٹ کے ساتھ رجسٹر کریں اور ان کے سٹیٹس کو درست کروانے اور ان کے پییشے کے مطابق نوکری دلوانے کی ذمہ داری سفارت خانے کی ہے۔

سعودی عرب میں عموماً اور ریاض میں خصوصاً پاکستانی کمیونٹی کمال کی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ ملک کی محبت میں بھی گرفتار ہے۔

یہ لوگ پاکستان کا قیمتی سرمایہ ہیں جن کی جتنی بھی قدر کی جائے کم ہے۔ یہ ایک آواز پر اپنے سیاسی اختلافات بھول کر پاکستان کے جھنڈے کے نیچے سینہ تان کر ہر قسم کی ملکی خدمت پر تیار ہو جاتے ہیں۔

میں نے کمیونٹی کے نمائندوں کے ساتھ ملاقات کی اور جاب فیئر منعقد کرنے کے لیے ان سے تعاون مانگا۔ مجھے اس بات کی خوشی اور اطمینان ہے کہ کمیونٹی نے بڑھ چڑھ کر متعدد جاب فیئرز کو منعقد کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔

یہ جاب فیئرز ریاض، جدہ، دمام اور تبوک میں منعقد کیے گئے اور ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو نوکریاں دستیاب ہوئیں۔

اس سلسلے میں ایک اور اہم کردار لوکل چیمبرز اینڈ کامرس کا تھا، جن کی وساطت سے ہم نے مختلف بزنسز سے رابطہ قائم کیا اور انہیں اپنے جاب فیئرز میں ریکروٹمنٹ کے لیے شمولیت کی دعوت دی۔

مجھے اس بات کی بہت خوشی ہے کہ میرے سفارت خانے کے آفیسرز اور عملے نے اس سعی کو کامیاب کرنے کے لیے تن من کی بازی لگا دی۔

وہ اس وقت تک گھر واپس نہیں جاتے تھے جب تک سفارت خانے میں آئے ہوئے آخری پاکستانی کا مطلوبہ کام نہیں ہو جاتا تھا۔

ان دنوں ہر روز لگ بھگ دو ہزار پاکستانی سفارت خانے میں اپنے سٹیٹس کی درستگی، پاسپورٹ کی فراہمی، نوکری اور اس سے متعلق کاموں کے لیے آتے تھے اور کسی پاکستانی کو بغیر اس کا کام مکمل کیے ہوئے واپس نہیں کیا جاتا تھا بھلے رات پڑ جائے۔

کسی افسر یا عملے کے رکن نے کام کی زیادتی یا آنے والے لوگوں کے مطالبات کا گلہ کیے بغیر ملک اور اپنے لوگوں سے متعلق اس اہم مشن کی اہمیت کو سمجھا اور دل و جان سے اسے کامیابی تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ ان کی اس فرض شناسی کے بغیر اتنے بڑے مشن کو کامیاب کرنا نا ممکن تھا۔

ہمارے عملے کے ارکان سفارت خانے اور قونصلیٹ کے علاوہ باقاعدگی کے ساتھ ڈیپورٹیشن سینٹرز میں موجود ہوتے تھے۔

ہوائی اڈوں پر ہمارا عملہ ہر روز سٹاف ڈیوٹی پر ہوتا تھا تا کہ جو لوگ اپنی مرضی سے واپس جانا چاہ رہے ہیں، انہیں کسی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کے علاوہ امیگریشن میں جہاں سٹیٹس کی درستگی کے معمولات طے پاتے تھے، وہاں پر ہمارا لیگل اور قونصلر سٹاف ہمہ وقت موجود ہوتا تھا۔

یوں یہ عمل بہتر سے بہتر ہوتا گیا اور اس قدر اہمیت اختیار کر گیا کہ دوسرے ملکوں کے باشندے ہمارے جاب فیئرز، جو ہم اپنے سکولوں کی عمارات میں منعقد کرتے تھے، ان کے باہر بیٹھ جاتے تھے اور منت سماجت کرتے تھے کہ انہیں بھی انٹرویو کا موقع دیا جائے۔ میں بنگلہ دیشی باشندوں کو بسا اوقات اکاموڈیٹ کر لیتا تھا۔

جب رعایت کا وقت ختم ہو رہا تھا تو میں نے سعودی فرمانروا سے اس میں مزید چند ماہ کے لیے اضافے کی درخواست کی جس کو قبول کر لیا گیا، یوں ہمارا یہ سٹیٹس درستگی کا سفر تیزی اختیار کرتا گیا۔ تقریباً نو ماہ بعد سفارت خانے میں آنے والوں کی تعداد کم ہو کر معمول پر آ گئی۔

اب ہمیں محسوس ہوا کہ حالات نارمل ہو گئے ہیں اور کمیونٹی میں خوف اور بےچینی کی فضا ختم ہو گئی ہے، چنانچہ ہم نے سعودی لیبر منسڑی سے دریافت کیا کہ اس دوران کتنے پاکستانی باشندوں کے سٹیٹس درست ہوئے ہیں؟

ہمیں بتایا گیا کہ ساڑھے نو لاکھ پاکستانیوں کے سٹیٹس ان چند ماہ میں درست ہوئے ہیں۔ میرے اور میرے رفقا کار اور پاکستانی کمیونٹی کے لیے یہ انتہائی اطمینان بخش نتیجہ تھا۔

میں اللہ سبحان تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے ہماری اس کوشش میں ہماری مدد کی وگرنہ اتنا بڑا کام سرانجام دینا ناممکن تھا۔

میرے علم کے مطابق کبھی کسی سفارت خانے نے یوں ریکروٹمنٹ کا کام اپنے ذمے نہیں لیا اور اسے اپنے منطقی انجام تک پہنچایا۔

میں سمجھتا ہوں کہ ہر سول سرونٹ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ نامساعد حالات میں روایتی روش اختیار کرنے کی بجائے خود لیڈر شپ رول اپنائےاور اپنے رفقائے کار کے لیے باعث تقلید بنے۔

سول سروسز میں قدرت اللہ شہاب، مسعود کھدر پوش اور مختار مسعود جیسے افسران کی ملک کو اشد ضرورت ہے۔ لیکن موجودہ دور میں سول سروسز کا یہ المیہ ہے کہ رہنماؤں کی بجائے بابوں کی سوچ رکھنے والی فوج ظفر موج مختلف وزارتوں اور اہم اداروں میں مسند نشین ہے۔

ہر وزارت کو اپنے ابھرتے ہوئے افسران کی لیڈر شپ کو نکھارنے کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔

نیپا اور نیشنل مینجمنٹ کورس میں ایسی تمام صورت حال کو بطور کیس سڈی زیر بحث لانا چاہیے تاکہ کہ افسران روایتی سوچ سے ہٹ کر عوامی خدمت میں جدت پسندی کی سوچ اپنائیں۔

نوٹ: محمد نعیم خان سعودی عرب میں پاکستان کے سفیر رہ چکے ہیں اس کے علاوہ وہ جدہ میں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) میں بھی اسٹنٹ سیکرٹری جنرل کے فرائض انجام دے چکے ہیں۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ