برطانیہ کے خیراتی ادارے آکسفیم نے کہا ہے کہ 2020 کے بعد سے دنیا کے پانچ امیر ترین افراد کی دولت دوگنی سے بھی زیادہ ہو گئی۔
یہ رپورٹ ایک ایسے موقعے پر شائع کی گئی جب اس ہفتے ڈیووس میں ورلڈ اکنامک فورم میں عالمی رہنما ملنے والے ہیں۔
ان پانچ امیر ترین افراد میں سپیس ایکس اور ٹیسلا کے مالک ایلون مسک، ایمزون کے بانی جیف بیزوس، فرانسیسی کاروباری شخصیت برنارڈ ارنالٹ، اوریکل کے لیری ایلیسن اور میٹا کے مارک زکربرگ شامل ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ان افراد کی دولت 2020 میں 405 ارب ڈالر سے بڑھ کر گذشتہ سال 869 ارب ڈالر ہوگئی۔
آکسفیم کے مطابق 2020 کے بعد سے دنیا بھر میں تقریباً پانچ ارب افراد غریب ہو چکے ہیں۔
اس دہائی کے آغاز سے لے کر اب تک دنیا کی معیشت کو تباہ کرنے والے کئی بحرانوں کے، جن میں کرونا وبا بھی شامل ہے، باوجود ارب پتی افراد 2020 کی دولت میں 3.3 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا۔
دنیا بھر میں عدم مساوات کے بارے میں آکسفیم کی سالانہ رپورٹ روایتی طور پر سوئس الپائن ریزورٹ میں پیر کو فورم کے افتتاح سے قبل جاری کی جاتی ہے۔
خیراتی ادارے نے بڑھتی ہوئی عالمی عدم مساوات پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ امیر ترین افراد اور کمپنیاں سٹاک کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے زیادہ دولت جمع کر رہی ہیں، لیکن ساتھ ہی نمایاں طور پر زیادہ طاقت بھی حاصل کر رہی ہیں۔
آکسفیم کے بقول: ’کارپوریٹ طاقت کا استعمال عدم مساوات بڑھانے کے لیے کے لیے کیا جاتا ہے۔
’مزدوروں کو دبا کر اور دولت مند شیئر ہولڈرز کو مالا مال کر کے، ٹیکسوں سے بچ کر اور ریاست کی نجکاری کے ذریعے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس میں کارپوریشنوں پر یہ بھی الزام عائد کیا گیا کہ وہ ’ٹیکسوں کے خلاف مستقل اور انتہائی موثر جنگ لڑ کر عدم مساوات کو ہوا دے رہی ہیں جس کے دور رس نتائج برآمد ہوں گے۔‘
آکسفیم کا کہنا ہے کہ ریاستوں نے اقتدار اجارہ داروں کے حوالے کر دیا ہے جس سے کارپوریشنوں کو اجازت مل گئی ہے کہ وہ لوگوں کی تنخواہوں، خوراک کی قیمتوں اور افراد کو ملنے والی دواؤں پر اثر انداز ہو سکیں۔
ادارے نے مزید کہا، ’دنیا بھر میں نجی شعبے کے ارکان کم شرح سود، زیادہ خامیوں، کم شفافیت اور دیگر اقدامات پر مسلسل زور دے رہے ہیں جن کا مقصد کمپنیوں کو سرکاری خزانے میں کم سے کم حصہ ڈالنے کے قابل بنانا ہے۔‘
خیراتی ادارے کا کہنا ہے کہ ٹیکس پالیسی سازی پر سخت لابنگ کی بدولت کارپوریشنز کم کارپوریٹ ٹیکس ادا کرنے میں کامیاب رہی، جس سے حکومتیں اس رقم سے محروم ہوگئی ہیں جو معاشرے کے غریب ترین افراد کی مالی مدد کے لیے استعمال کی جاسکتی تھی۔
آکسفیم نے کہا او ای سی ڈی ممالک میں کارپوریٹ ٹیکس 1980 میں 48 فیصد سے کم ہو کر 2022 میں 23.1 فیصد رہ گئے ہیں۔
اس عدم مساوات کو دور کرنے کے لیے آکسفیم نے دنیا کے کروڑ پتی اور ارب پتی افراد پر ویلتھ ٹیکس عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے جس کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ اس سے ہر سال 1.8 ٹریلین ڈالر حاصل ہو سکتے ہیں۔
خیراتی ادارے نے سی ای او کی تنخواہوں کو محدود کرنے اور نجی اجارہ داریوں کو توڑنے کا بھی مطالبہ کیا۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔