برطانیہ نے پیر کو حزب التحریر کو کالعدم دہشت گرد گروپ قرار دیتے ہوئے اس پر پابندی عائد کرنے کی کارروائی شروع کر دی ہے۔
پابندی کا مطلب یہ ہے کہ برطانیہ میں حزب التحریر سے تعلق رکھنا، اس کی تشہیر کرنا، اس کے اجلاسوں کا اہتمام کرنا اور اس کے لوگو کی عوامی سطح پر نمائش جرم ہوگا۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق گروپ کے برطانیہ میں مقیم ایک نمائندے نے تبصرے کے لیے ای میل کا فوری جواب نہیں دیا ہے۔
گروپ نے گذشتہ ماہ اپنی ویب سائٹ پر پابندی لگائے جانے کو ’مایوسی کی علامت قرار دیا تھا۔‘
سرکاری ویب سائٹ کے مطابق اگر کسی تنظیم کے بارے میں مانا جاتا ہے کہ وہ ’دہشت گردی میں ملوث ہے‘ اور اس کا کوئی عمل ’دہشت گردی‘ کے مترادف ہے تو اس صورت میں وزیر داخلہ کو برطانوی قانون کے تحت اس پر پابندی عائد کرنے کا اختیار حاصل ہے۔
برطانوی وزیر داخلہ جیمز کلیورلی کے مطابق حزب التحریر پر پابندی لگانے کی کارروائی شروع ہو چکی ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق برطانوی وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ ’حزب التحریر یہودی مخالف ہے اور اس نے دہشت گردی کو فروغ‘ دیا ہے۔
حزب التحریر پر بنگلہ دیش، مصر، جرمنی اور پاکستان سمیت وسطی ایشیائی اور عرب ممالک میں پہلے ہی پابندی لگائی جا چکی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کلیورلی کا کہنا تھا کہ ’حزب التحریر ایک یہودی مخالف تنظیم ہے جو دہشت گردی کے فعال طور پر فروغ میں مصروف ہے اور اس کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔‘
کلیورلی کے پارلیمنٹ میں پیش کردہ بل پر ارکان پارلیمنٹ کے اتفاق کی صورت میں حزب التحریر پر 19 جنوری سے پابندی لگ جائے گی جس کے بعد اس تنظیم کی حمایت کرنا جرم بن جائے گا۔
اس جرم کی سزا 14 سال قید ہو سکتی ہے اور اثاثے بھی ضبط کیے جا سکتے ہیں۔
برطانوی حکومت کے ایک بیان کے مطابق: ’برطانیہ یہود دشمنی کے خلاف کھڑا ہے اور کسی بھی شکل میں دہشت گردی کے فروغ کو برداشت نہیں کرے گا۔‘
برطانیہ کے ہوم آفس کے مطابق 1953 میں قائم ہونے والی اس تنظیم کا صدر دفتر لبنان میں ہے۔ یہ تنظیم برطانیہ، امریکہ، کینیڈا اور آسٹریلیا سمیت کم از کم 32 ممالک میں سرگرم ہے۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔