پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد میں ضلعی مجسٹریٹ کے ایک نوٹیفکیشن کے بعد نئی بحث کا آغاز ہوگیا ہے، جس میں انہوں نے ضلعے بھر میں حجاموں پر داڑھی کی 'خلاف سنت' تراش خراش اور ڈیزائن بنانے پر پابندی عائد کر دی ہے۔
سوشل میڈیا پر صارفین اس فیصلے کے حوالے سے مختلف آرا کا اظہار کر رہے ہیں۔ حکم نامے کے حامی اس فیصلے کو سراہتے ہوئے 'شریعت کے عین مطابق' قرار دے رہے ہیں جبکہ مخالفین کا خیال ہے کہ یہ ریاست کی شہریوں کی نجی زندگی میں بے جا مداخلت اور خلاف آئین ہے۔
26 ستمبر کو جاری ہونے والے اس حکم نامے میں اگرچہ کسی ایسے قانون کا حوالہ نہیں دیا گیا جس کے تحت یہ پابندی عائد کی گئی ہو اور نہ ہی اس کی خلاف ورزی پر سزا اور اس کے نفاذ کی مدت کا تعین کیا گیا۔ تاہم ڈپٹی کمشنر عبدالحمید کیانی کے دستخط کے ساتھ جاری ہونے والے اس حکم نامے میں درج ہے کہ اسے تحصیل مفتی مظفرآباد کی تجویز پر جاری کیا گیا۔
جب انڈپینڈنٹ اردو نے اس حکم نامے کے محرک اور تجویز دینے والے تحصیل مفتی مظفرآباد مفتی محمد جمال میر سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ داڑھی سنت نبوی ہے اور شریعت کے طے کردہ اصولوں کے خلاف اس کی تراش خراش سنت نبوی کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ 'شریعت میں داڑھی کا ایک معیار مقرر ہے اور اس سے ہٹ کر داڑھی کاٹنا، منڈوانا یا نا مناسب تراش خراش کرنا خلاف شرع اور قابل تعزیر جرم ہے۔'
اس معاملے پر شریعت یا قانون کی مقرر کی گئی سزاؤں کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں مفتی جمال میر کا کہنا تھا کہ 'یہ حاکم وقت کا اختیار ہے کہ وہ اس پر کیا سزا و جزا مقرر کرے۔'
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ فی الحال صرف 'غیر شرعی ڈیزائن' بنانے پر پابندی کی تجویز دی گئی ہے، البتہ جب ایک 'برائی کا خاتمہ' ہو جائے تو دوسری کی جانب پیش رفت ہو سکتی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ فی الوقت شیو بنانے یا 'شریعت کے مقررہ معیار' سے چھوٹی داڑھی رکھنے کے معاملے کو نہیں چھیڑا گیا کیونکہ بقول ان کے: 'اس میں کئی مصلحتیں کار فرما ہیں۔'
اس سے قبل جولائی میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی رکن صوبائی اسمبلی رخسانہ کوثر نے پنجاب اسمبلی میں ایک قرارداد جمع کروائی تھی، جس میں داڑھی کے ڈیزائن بنانے یا بنوانے پر پابندی عائد کرنے اور اس کے لیے باقاعدہ سزائیں تجویز کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا جبکہ خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع میں عسکری گروہوں کی دھمکیوں کے باعث مقامی حجاموں نے داڑھی کے 'غیر شرعی' ڈیزائن بنانے کا کام ترک کر رکھا ہے۔
یہ حکم نامہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں اپنی نوعیت کا پہلا حکم نامہ نہیں، اس سے قبل ضلع پلندری کی تراڑ کھل نامی تحصیل میں ایک سب ڈویژنل مجسٹریٹ بھی اس نوعیت کا ایک حکم نامہ جاری کر چکے ہیں۔ شہری اس نوعیت کے حکم ناموں کو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے عبوری آئین سے متصادم قرار دے رہے ہیں، جو ان کے بقول شخصی آزادیوں پر 'کریک ڈاؤن' اور شہریوں کی نجی زندگیوں میں ریاست کی 'بے جا مداخلت' کے مترادف ہے۔
صحافی حارث قدیر نے ڈپٹی کمشنر مظفرآباد کے حکم نامے کی ایک کاپی سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ '(سرکاری افسران)جس کام کی تنخواہ لیتے ہیں، وہ فرائض ادا نہیں کرتے (تو کیا اب) عام لوگوں کو سنت پر جبراً عملدرآمد کروائیں گے؟ لوگوں کی ذاتی زندگی میں مذہب، فرقے یا کنبے، قبیلے کی آڑ لے کر مداخلت کرنا عبوری آئین 1974 کے تحت جرم ہے۔'
شہری سوال اٹھا رہے ہیں کہ ڈپٹی کمشنر کو کس قانون کے تحت یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اس طرح کے نوٹیفکیشن جاری کرے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس سید منظور حسین گیلانی نے اپنے تبصرے میں اس نوٹیفکیشن کو 'احمقانہ' قرار دیتے ہوئے سوال اٹھایا کہ 'اگر داڑھی کی لمبائی، چوڑائی، ڈیزائن ضلعی مجسٹریٹ مقرر کرنے لگیں تو کل یہ سر کے بال، شلوار کی لمبائی چوڑائی اور جوتوں کے رنگ ڈیزائن بھی طے کریں گے۔ کوئی ماہر قانوں دان رہنمائی کر سکتا ہے کہ یہ اختیار ڈپٹی کمشنر کو کس قانون کے تحت حاصل ہے؟'
اسد علی قریشی نامی وکیل نے فیس بک پر اپنے تبصرے میں لکھا کہ 'مظفرآباد کو مالاکنڈ نہیں بننے دیں گے۔' اسی طرح راجہ آفتاب نامی سماجی کارکن نے لکھا: ' داڑھی سے زیادہ ضروری ہے ایک نمبر دوائی ملے، خود ساختہ مہنگائی کا خاتمہ، خالص دودھ، ملاوٹ سے پاک خالص اشیائے خورد و نوش، منشیات کا خاتمہ۔ اس پر تو کوئی نوٹیفکیشن نہیں۔۔ کیوں؟'
ایک جانب ڈپٹی کمشنر کے اس 'متنازع' نوٹیفکیشن پر تنقید کی جا رہی ہے تو دوسری طرف سوشل میڈیا پر ڈپٹی کمشنر کے اس فیصلے اور حکم نامے کی حمایت کرنے اور اسے سراہنے والوں کی بھی کمی نہیں۔
محمد ندیم منہاس نامی صارف نے اس فیصلے کی تعریف کرتے ہوئے لکھا کہ 'فیشن ایبل داڑھی پر پابندی ڈپٹی کمشنر مظفرآباد کا ایک قابل تحسین فیصلہ ہے۔' جبکہ کفایت نقوی نامی شہری کا کہنا ہے کہ 'کچھ کام انسان اپنی مرضی سے نہیں کر سکتے۔ سنت نبوی کا مذاق اڑانے والوں کو تو کوڑے مارنے چاہییں۔ ویلڈن ڈپٹی کمشنر۔'
اسی طرح ظفراللہ عباسی نامی صارف نے اسے 'بہت اچھا اقدام' قرار دیتے ہوئے لکھا کہ وہ اس کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔
متعدد کوششوں کے باوجود یہ حکم نامہ جاری کرنے والے ڈپٹی کمشنر مظفرآباد عبدالحمید کیانی اس معاملے پر بات کرنے کے لیے دستیاب نہیں ہو سکے۔