کوئٹہ میں قبروں کے کتبوں پر مرحوم کا نام ولدیت، ولادت، تاریخ وفات اور مختلف کلمات لکھے جاتے تھے مگر اب ہزارہ برادری نے بہشت زینب قبرستان میں اپنے پیاروں کی قبروں پر تصویر لگانے کے منفرد انداز کو اپنایا ہے، جس سے وہ قبر کی نشاندہی کرتے ہیں۔
کوئٹہ کی ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے محمد آصف نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ روایت ماضی قریب میں ہی شروع ہوئی ہے۔
انہوں نے بتایا: ’یہاں لوگ قبروں کے ماربل پر تصویر کندہ کرتے ہیں تاکہ انہیں یاد رکھ سکیں، رشتے دار آسانی سے قبر تلاش کر سکیں یا دعائے مغفرت کریں۔ یہ رجحان ابھی شروع ہوا ہے۔‘
بقول محمد آصف: ’پہلے صرف سیمنٹ سے بناتے تھے۔ یہ زیادہ تر امیر لوگ بنواتے ہیں کیونکہ یہ سستا نہیں۔ اس میں ہزاروں روپے لگتے ہیں۔‘
کوئٹہ کے غلام نبی، جو ایک سنگ تراش ہیں اور تقریباً پچھلے 30 سال سے قبرستان کے عقب میں ایک چھوٹی سی جگہ پر یہی کام کرتے ہیں، نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’یہ دکان 30 سال سے ہے۔ کام کے لحاظ سے سفید، سیاہ اور گرین ماربل میں زیادہ فرق نہیں۔ سیاہ پتھر کی قیمت زیادہ ہے اور کام مشکل ہے۔ ایک عکس پانچ، چھ دن میں بنتا ہے جبکہ لکھائی کے ساتھ 18 سے 20 دن لگتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسی طرح قبروں کی مرمت اور بناوٹ کا کام کرنے والے ایک اور کاریگر استاد محمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ 18 سال سے اس قبرستان میں بطور مستری کام کر رہے ہیں۔
استاد محمد نے اس کام پر آنے والے اخراجات کے حوالے سے بتایا کہ ’کالا ماربل لگانے پر تین لاکھ جبکہ سفید ماربل لگانے میں 50 ہزار روپے خرچہ آتا ہے۔‘
ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والی سماجی شخصیت ہما فولادی نے قبروں پر ایسی تصاویر لگانے کو ’مثبت عمل‘ قرار دیا۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ’یہ ایک مثبت عمل ہے، ان میں سے بہت سے ایسے بھی لوگ ہیں، جن کا تعلق مختلف شعبہ فکر سے تھا۔ کچھ لوگوں نے کتبوں پر لکھ بھی رکھا ہے کہ وہ کیا کام کرتے تھے، تو رہتی دنیا تک وہ اور ان کا نام روشن رہے گا۔‘
ہما فولادی نے مزید بتایا: ’میں نے ایسی خواتین بھی دیکھی ہیں، جو ہر سال اپنے پیاروں کی تصاویر تبدیل کرتی ہیں۔ میں نے ایک خاتون کو قبرستان میں دیکھا وہ اپنے بیٹے کی قبر پر تصویر لگا رہی تھیں، میں نے ان سے پوچھا کہ کیا کر رہی ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ میں تصویر تبدیل کروا رہی ہوں کیونکہ یہ والی تصویر بہت پرانی ہوچکی ہے۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔