پاکستان کی کُل آبادی کا ایک بہت چھوٹا سا حصہ ٹوئٹر استعمال کرتا ہے۔ یہ سب وہ ہیں جن کے پاس سمارٹ فون اور انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہے۔
سیاسی جماعتوں نے بھی اپنے اپنے تنخواہ دار رکھے ہوئے ہیں جو ہر شام مخالف پارٹی کے خلاف ٹرینڈز بناتے اور چلاتے ہیں۔
کچھ ہم سے دل جلے، دل پر بہت زیادہ بوجھ بڑھنے کے بعد، ٹویٹ پر ٹویٹ دے مارتے ہیں تو کوئی ایسے ہی اپنی انگریزی چیک کرنے کو ایک مزے کا ٹوئٹر تھریڈ بنا دیتا ہے۔
اپنی طرف سے سمجھتے ہیں کہ معاشرے کو اس کا مکروہ چہرہ آج ہم ہی نے دکھایا ہے لیکن معاشرے نہ ایسے بنتے ہیں نہ بگڑتے ہیں اور نہ ہی سدھرتے ہیں۔
کئی لوگوں کی کہانیاں پڑھ کر دل روتا ہے پر کیا کریں، ہم بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔ چاہتے ہوئے بھی سب کچھ ٹھیک نہیں کر سکتے۔ کچھ دن پہلے ایک خاتون کی ٹویٹ پڑھی تو دل یک دم اداس ہو گیا۔ 2019 میں بھی ہماری سوچ وہیں کی وہیں ہے، جہاں 40 سال قبل تھی۔
خاتون کی ایک دوست کو رشتے والوں نے محض اس بنیاد پر مسترد کر دیا کہ اس کے پاؤں میں ایک اضافی انگلی تھی۔ لڑکی یونیورسٹی میں دو، چار پوزیشنز لے چکی تھی لیکن اس کی اضافی انگلی اس کی ڈگریوں اور علم پر بھاری تھی۔
کہتے ہیں ڈگری سے روٹی نہیں بنتی۔ روٹی تو اس اضافی انگلی سے بھی نہیں بنتی، پر کیا کریں اکلوتا بیٹا ہے۔ اس کے لیے چاند سی دلہن لے کر جانی ہے۔ بیٹے کا دل خوش ہو نہ ہو، محلے کی بیبیوں کی انگلیاں دانتوں تلے آنی چاہییں۔
شادی جیسے مقدس رشتے کو آج ہم ایک کاروبار بنا چکے ہیں۔ برینڈڈ جوڑا پہنے اور بھاری بھر کم میک اپ کیے مسز خان جیسی خواتین بڑے بڑے دفتروں میں بیٹھ کر لوگوں کے رشتے کراتی ہیں۔
آدمی کو اس کے حقوق اور عورت کو اس کے فرائض بتا کر اپنے پیسے بٹورتی ہیں اور پھر گھر بنانے یا توڑنے چل دیتی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ خواتین بغیر للو کے لڑکیوں کی شادیاں ایسے گھروں میں کراتی ہیں جہاں انہیں بھاری بھر کم کپڑوں کے ساتھ دو چار کلو زیور پہن کر باورچی خانے میں بڑی سی کڑاہی میں پوریاں تلنی پڑتی ہیں۔
شوہر کی پسند تو سالوں بعد پتہ لگتی ہے لیکن خالہ ساس کی نند کی بیٹی کے شوہر کو چائے میں کتنی چینی پسند ہے، اس کا انہیں پہلے دن سے خیال رکھنا پڑتا ہے۔
رشتہ پریڈ سے تھکی ہوئی یہ خواتین، اپنے شوہر کو ہی اپنی عزت کا محافظ سمجھتے ہوئے اس کے خاندان کے ہر فرد سے روز اپنی تذلیل کراتی ہیں۔
دکھ کا مقام تو یہ ہے کہ جو عورت جتنا سہتی ہے اسے اتنا معتبر سمجھا جاتا ہے اور جو پہلے ہی دن اس ذلالت پریڈ سے انکار کر دے، اسے بری عورت کا خطاب مل جاتا ہے۔
اگلے دن مسز خان جیسی ہی ایک خاتون ملیں۔ بڑے درد بھرے لہجے میں کہنے لگیں شوہر جوتے میں بھی کھانا دے تو اس میں بھی عورت کی عزت ہے۔
ان کی اس بات نے ہمیں اسرائیلی وزیرِ اعظم کی کھانے کی میز پر جاپانی صدر اور ان کی اہلیہ کو جوتے میں پیش کیا جانے والا میٹھا یاد آگیا۔ جاپان میں جوتوں کو گھر کے اندر نہیں لایا جاتا اور اسرائیل میں جوتے ان کی کھانے کی میز تک پہنچا دیے گئے۔
جوتے کے اندر میٹھا خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا تھا۔ جاپانی صدر نے اسے اپنی بے عزتی جانا۔ عشائیہ تو بہترین انداز میں ختم ہوا لیکن وہ جوتا جاپانی صدر کے دل میں ایک درد بن کر بیٹھ گیا۔
ہم سوچنے لگے اگر اس جوتے جیسے برتن پاکستان میں عام ہو جائیں تو کیا یہ آنٹی اس میں دال چاول کھانا پسند کریں گی؟ خاص طور پر جب وہ جوتا نما پلیٹ ان کے شوہر بہت محبت سے ان کے لیے خرید کر لائے ہوں۔
شادی ایک مقدس رشتے کا نام ہے اور ہر رشتے کی بنیاد محبت اور عزت ہوتی ہے۔ اگر کسی رشتے میں ایک فریق کی عزت نہیں کی جا رہی تو وہ رشتہ نہیں بلکہ غلامی کی ایک گھٹیا صورت ہے۔
ہمیں اپنے شادی کے پورے نظام کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے مرحلے میں تو دوسروں کی شادیوں کا ان سے زیادہ انتظار کے تجسس کو ختم کریں۔
صرف اپنی شادی میں دلچسپی رکھیں، دوسرے کی شادی اس کا ذاتی معاملہ رہنے دیں۔ اگلے مرحلے میں لڑکیوں کو بھیڑ بکری سمجھنا چھوڑ دیں۔
دنیا بہت ترقی کر رہی ہے لیکن اللہ کے ہاں اب بھی انسان اس کی مرضی کے مطابق تخلیق کیے جاتے ہیں۔ آرڈر پر لڑکی بنوانے کی سہولت ابھی وہاں میسر نہیں۔ شکریہ۔