ایرانی حملہ دوطرفہ اتحاد کے لیے نقصان دہ ہے: سیاسی و سفارتی ردعمل

سابق وزیر اعظم شہباز شریف نے ایران کی جانب سے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی پر حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ میزائل حملہ ہمسائیگی کے اصولوں کے خلاف ہے۔

پاکستانی فوجی 25 فروری 2020 کو کرونا وبا کے دوران چہروں پر ماسک لگائے تفتان میں بند پاک ایران سرحد پر پہرہ دے رہے ہیں (اے ایف پی)

منگل کی رات ایران کی جانب سے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی اور حملے کے بعد پاکستان کے دفتر خارجہ نے شدید مذمت کرتے ہوئے اس کے ’سنگین نتائج‘ کا انتباہ تو جاری کیا لیکن کیا پاکستان جوابی کارروائی کرے گا یا سفارتی سطح پر اس معاملے کا حل ڈھونڈا جائے گا۔ یہ کہنا تو قبل از وقت ہے لیکن اس حملے کو دوطرفہ تعلقات کے لیے نقصان دہ قرار دیا جا رہا ہے۔

سابق وزیراعظم شہباز شریف نے ایرانی حملے پر ردعمل دیتے ہوئے بات چیت سے مسئلے کے حل پر زور دیا ہے، جبکہ کچھ سابق سفارت کار جوابی کارروائی کا عندیہ بھی دے رہے ہیں۔

شہباز شریف نے کہا کہ ’وہ ایران کی جانب سے پاکستان سالمیت کی خلاف ورزی پر حیران ہیں۔ یہ میزائل حملہ ہماری ہمسائیگی کے اصولوں کے خلاف ہے اور دونوں ممالک کے درمیان تاریخی تعلقات کو نقصان پہنچاتا ہے۔  دونوں ممالک کے درمیان مخلصانہ بات چیت اور بامعنی تعاون وقت کی ضرورت ہے۔‘

پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما اور امریکہ میں پاکستانی سفیر کی حیثیت سے ذمہ داریاں انجام دینے والی سینیٹر شیری رحمٰن نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر لکھا کہ ’ایران کی جانب سے پاکستان کی سرحد کے اندر بلا اشتعال حملہ ناقابل قبول اور قابل مذمت ہے۔ جب بھی دہشت گرد گروہوں کی جانب سے پاک ایران سرحد پر ہنگامہ آرائی ہوئی ہے تو پاکستان نے تحمل سے کام لیا ہے اور ہمیشہ دہشت گردی کے بین الاقوامی چیلنج پر اجتماعی ردعمل کی کوشش کی ہے۔ اسے پاکستان کی دانشمندانہ حکمت عملی سمجھنا چاہیے نہ کہ کمزوری۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’کشیدگی میں کمی کے لیے تہران کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہو گی کہ تشدد اور تنازع بالکل وہی ہے جو غیر ریاستی عناصر اور دہشت گرد چاہتے ہیں۔ پاکستان کا اس طرح کے تنازعے کے شعلوں کو بھڑکانے میں کوئی کردار نہیں ہے لیکن اگر ایران نے سمجھداری سے کام نہ لیا تو ظاہر ہے اسے جواب دینا پڑے گا۔‘

سینیٹ ڈیفنس کمیٹی کے سربراہ مشاہد حسین سید نے ’ایکس‘ پر ایرانی حملے سے متعلق تین نکات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ایرانی حملہ فروری 2013 کے پاکستان ایران سکیورٹی معاہدے کی صریح خلاف ورزی کرتا ہے جس میں واضح طور پر ’مشترکہ دہشت گردی کے خطرات کے خلاف مشترکہ کارروائیوں کا مطالبہ کیا گیا۔

’اس حملے سے غزہ کی نسل کشی کے وقت اسلامی اتحاد کو نقصان پہنچا ہے۔ نہ صرف ایران کو خود بھی اب نقصان اٹھانا پڑے گا کیونکہ امریکہ اور اس کے اسرائیلی اور انڈین اتحادیوں کے لیے ایک بری مثال قائم کی ہے جو خود ایران پر بھی جوابی فائرنگ کر سکتے ہیں۔‘

مشاہد حسین سید نے مزید لکھا کہ ’گزشتہ برس اپریل میں ایران میں مقیم دہشت گردوں نے بلوچستان میں پاکستانی سکیورٹی اہلکاروں کو قتل کیا لیکن پاکستان نے تحمل سے کام لیا۔

’معصوم فلسطینیوں کا قتل عام کرنے والے اسرائیل کے خلاف اپنی بندوقیں چلانے کے بجائے ایران نے 24 گھنٹوں کے اندر 3 مسلم ممالک پر حملہ کرنے کا انتخاب کیا: عراق، شام اور پاکستان۔ ایران کی منافقت اور دوہرا معیار سخت قابل مذمت ہے۔‘

سابق سیکریٹری خارجہ سلمان بشیر نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’میرے خیال سے پاکستان کے پاس اور کوئی راستہ نہیں۔ بات چیت سے معاملہ حل کیا جائے گا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایران کے پاکستان میں حملے سے ایک روز قبل ایرانی خصوصی نمائندہ برائے افغانستان کی پاکستان میں وزیر خارجہ اور دیگر اعلی عہدے داروں سے ملاقات ہوئی تھی، جب کہ ڈیوس میں پاکستان کے نگران وزیر اعظم سے ایرانی وزیر خارجہ کے ساتھ ملاقات کی تصویر بھی منظر عام پر آئی۔

اس سفارتی میل ملاپ کے بعد اس حملے پر کئی سوال اٹھتے ہیں کہ اب پاکستان ایران تعلقات کس نہج پر جائیں گے؟

انڈپینڈنٹ اردو نے اس معاملے پر سابق سفارتی و دفاعی افسران سے گفتگو کی۔

سابق سفارت کار عاقل ندیم نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ایران کے اس اقدام سے دو طرفہ تعلقات کو متاثر ہوں گے۔ ایران کو یقینی طور پر اس حملے کے نتائج کا بھی اندازا ہو گا۔ پاکستان نے مذمت تو کر دی لیکن اب ایران سے معافی کا مطالبہ کرنا چاہیے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اسلام آباد، تہران کے ساتھ معاشی تعلقات پر بھی پابندی لگا سکتا ہے۔‘

سابق سیکرٹری خارجہ سلمان بشیر نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’پاک ایران تعلقات اچھے اور مستحکم ہیں۔ حالیہ اختلافات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ میزائل حملہ ایک خرابی ہے اور اس کے لیے سفارتی ردعمل کی ضرورت ہے۔‘

ریٹائرڈ بریگیڈیئر طاہر محمود نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’ایران نے جو حرکت کی ہے اس کا عوامی ردعمل تو منفی ہو گا لیکن ریاست کو کسی ردعمل سے پہلے معاملات کو دیکھنا پڑے گا اور اسلام آباد واقعے کی تحقیقات کا بھی مطالبہ کرے گا۔

’اس سے پاکستان ایران سرحد پر نقل و حرکت متاثر ہو گی۔ ایران کے پاس معافی مانگنے کا آپشن موجود ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان