ہم لوگ الحمدللہ پاکستانی ہیں اور اپنی سواری سے وہی سلوک کرتے ہیں جیسا اپنی کسی بھی پیاری چیز سے کرنے کا حق ہے، یعنی اسے منڈ کے رکھتے ہیں۔
تیل پانی ہے، نئیں ہے، پیٹرول بھرایا اور دے مار ساڑھے چار، جب کبھی کہیں کھڑی ہو گی تو دیکھا جائے گا کہ انجن کھلتا ہے یا خالی سیلوں (Seals) پہ گزارا ہو سکتا ہے۔
الیکٹرک گاڑیوں میں لیکن ایسا نہیں ہو سکتا اور یہ اتنی سادہ بات نہیں ہے۔
پہلے تو مجھے اعتراف کرنے دیں کہ میں الیکٹرک گاڑیوں اور موٹر سے چلنے والے کھلونوں میں کوئی فرق نہیں سمجھتا، یہ میرا دماغی مسئلہ ہے۔
دوسرا پرابلم یہ ہے کہ مجھے ایک گاڑی کا ڈیش بورڈ اور اس میں لگے ہوئے سارے بٹن ایسے چاہئیں جو سامنے دیکھتے ہوئے میں ہاتھوں سے ٹٹول کے دبا سکوں، مجھے خواہ مخواہ کے ٹچ سمجھ نہیں آتے کہ بندہ تنگ آ کے گاڑی روکے اور سکرین سے ڈھونڈ کے اے سی یا ہیٹر آہستہ کرے۔
یعنی ایک اولڈ سکول بندہ، جو مینوئل گاڑی کا عاشق ہے، جو پچھلی صدی میں رہتا ہے، وہ آپ کو ایک اہم ترین خبر سنانے آیا ہے کہ بجلی سے چلنے والی گاڑیاں سردی میں اچھا خاصا مسئلہ کر سکتی ہیں۔ رائٹ پرسن فار دی رائٹ جاب ہاں؟
پچھلے ہفتے شکاگو میں ایک صبح اچانک کچھ ٹیسلا والوں کو پتہ چلا کہ ان کی گاڑی میں بیٹریز ٹھنڈ کی وجہ سے جم چکی ہیں، یعنی سادہ لفظوں میں گاڑی سٹارٹ نہیں ہو سکتی۔
پھر اس سے زیادہ مسئلہ تب ہوا جب کچھ چارجنگ سٹیشن بھی ٹھس ہو گئے، جو چل رہے تھے وہ عام سپیڈ سے زیادہ وقت لے رہے تھے گاڑی چارج کرنے میں۔ چینل سی بی ایس شکاگو کے مطابق 45 منٹ کے چارجنگ ٹائم کی جگہ دو گھنٹے لگ رہے تھے۔
اگر ایوریج دیکھیں تو درجہ حرارت جیسے جیسے منفی میں جائے گا، بیٹری 30 پرسنٹ تک متاثر ہونے کا ڈیٹا موجود ہے، کم بھی ہو سکتی ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ خراب بھی ہو سکتی ہے، اور شکاگو میں جنوری 2024 کے درمیانے ہفتے میں یہی کچھ ہوا۔
اب سوچیں کہ مری والا سانحہ ابھی زیادہ پرانا نہیں ہے۔ موسم کی تبدیلی آپ کے سامنے ہے۔ آنے والے برسوں میں سردی چھوڑیں میدانی علاقے میں برفباریوں کی پیشنگوئی موجود ہے۔
ایسے میں خواہ مخواہ کسی دن بیچ راستے میں آپ کی الیکٹرک گاڑی یا موٹر سائیکل کھڑی ہو جائے تو آپ کیا کریں گے؟ اور وہ شکاگو تھا، اور وہ ٹیسلا چلانے والے تھے، یہ پاکستان ہے اور آپ میڈ ان چائنا میں بھی تین نمبر مال چلاتے ہیں، کیا کریں گے؟
منفی درجہ حرارت میں بیٹری ویسے بھی جلدی خالی ہوتی ہے، برفباری کے دنوں میں باہر نکل کے اپنا فون چیک کر لیں کہ بیٹری کتنی جلدی کھاتا ہے، اس کی وجہ مینوفیکچررز کے مطابق یہ ہے کہ چارج لینے کے لیے جو سامان، جو دھاتیں اندر موجود ہوتی ہیں، ان میں کیمیکل اور فزیکل، دونوں ری ایکشن سست ہو جاتے ہیں۔
یہ تو عام بیٹری کا مسئلہ ہو گیا، الیکٹرک گاڑی میں چکر یہ ہے کہ ایک سسٹم خودکار ہوتا ہے جس کا یہ کام ہے کہ ٹمپریچر گرے گا تو اس نے بیٹری کو گرم رکھنا ہے۔ بیٹری ایک خاص ٹمپریچر سے نیچے جا کے ٹھنڈی ہو گئی تو ڈیڈ ہو جائے گی۔
اب آپ جب اسے چارج بھی کرتے ہیں تو وہ سست چارجنگ اس لیے پکڑتی ہے چونکہ پہلے اسے خود کو گرم کرنا ہے، یعنی آپ کی بجلی پہلے اس سسٹم کے استعمال میں آئے گی، پھر بیٹری چارج ہونا شروع ہو گی، پھر وہ اپنا درجہ حرارت ایک خاص لیول پہ رکھے گی اور چارجنگ والا دھندہ بھی چلائے گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جو چیز اس سے زیادہ خطرناک ہے وہ یہ کہ پیٹرول گاڑیوں کی وجہ سے ہمیں کبھی آئیڈیا نہیں ہوا کہ انجن کی گرمی سے چلنے والا ہیٹر کتنی بڑی نعمت ہے۔
اب ماہرین کہتے ہیں کہ وہ تیس فیصد نقصان تو ایک طرف، جب گاڑی کو اندر سے گرم رکھنا ہوتا ہے تو یہی ہیٹر الیکٹرک انجن میں بیٹریوں کے لیے ایک اور بڑی فٹیگ ہوتی ہے، اس وجہ سے بھی وہ جلدی ڈرین ہو جاتی ہیں۔
تو یہ سارے الیکٹرک گاڑیوں کو سردی میں ہونے والے مسائل تھے، جو بات واحد پازیٹو ہے، وہ یہ کہ ’بیٹری کو نقصان کوئی نہیں ہو گا۔‘ درجہ حرارت نارمل ہو گا تو آپ کی گاڑی انسان کی بچی بن جائے گی۔
اس کا اکلوتا حل فوربس والے یہ بتاتے ہیں کہ الیکٹرک گاڑی میں ہیٹر پہلے سے لگا لیں جب آپ کی گاڑی چارج ہو رہی ہو، ڈرائیو شروع کریں تو اسے بند کر دیں یا قدرے کم رکھیں، اور دوسرا کام یہ کریں کہ گاڑی آہستہ چلائیں کیونکہ سامنے سے آنے والی ہوا کا پریشر بنے گا تو آپ کی بیٹری کو زور لگانا پڑے گا۔ (سمپل ایروڈائنامکس!)
ہے پھر موٹر سے چلنے والا کھلونا کہ نئیں؟ یار سیدھی سی بات ہے، ترقی یافتہ دنیا کے تجربوں کا شکار مت ہوں۔ اگلے بیس پچیس سال تک ہمارے جیسے ملکوں میں پیٹرول گاڑی ہی وارا کھاتی ہے یا زیادہ سے زیادہ ہائبرڈ۔ ان لوگوں کو پہلے سکون سے بھگتنے دیں۔
جب کوئی کام کی چیز بن جائے گی تو دیکھا جائے گا۔ اس وقت، ہمارے لوڈشیڈنگ حالات میں، اور بدلتے موسمی تغیرات میں، وہی گاڑیاں ٹھیک ہیں جنہوں نے زمانے کی ماریں کھائی ہوئی ہیں۔
وہی یعنی چہ؟
پیٹرول گاڑیاں!
خوش رہیں، آباد رہیں، مولا کبھی برفباری میں رسوا نہ کرے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔