ہماری حکومت میں خواتین کو بہتر حقوق حاصل ہیں: طالبان سربراہ

طالبان سربراہ ہبت اللہ اخوندزادہ کا کہنا ہے کہ افغانستان میں سابقہ حکومتوں نے خواتین کے حقوق پر توجہ نہیں دی جبکہ ان کی حکومت میں خواتین کو بہتر حقوق دیے گئے ہیں۔

28  ستمبر، 2021 کی اس تصویر میں افغان خواتین دارالحکومت کابل کی ایک سڑک سے گزر رہی ہیں (اے ایف پی فائل فوٹو)

طالبان کے سربراہ نے ایک غیر معمولی آڈیو پیغام میں دعویٰ کیا ہے کہ ان کی حکومت، جس نے لڑکیوں اور خواتین کو سکولوں اور کام کی جگہوں سے دور رکھا ہے، خواتین کے حقوق کو کسی بھی سابقہ حکومت کے مقابلے میں بہتر طور پر یقینی بنایا ہے۔

2021  سے طالبان کی زیرقیادت اسلامی امارت افغانستان کے رہنما ہبت اللہ اخوندزادہ نے مزید کہا کہ ان کی حکومت خواتین اور بیواؤں کی زبردستی شادی نہیں کرتی ہے تاہم یہ ایسا دعویٰ ہے جو زمین پر موجود سماجی خواتین کارکنوں کے بیانات سے متصادم ہے۔

افغان نشریاتی ادارے ’طلوع نیوز‘ کے مطابق ہبت اللہ اخوندزادہ نے جمعرات کو جاری اپنے آڈیو پیغام میں کہا: ’ہم نے خواتین کے حقوق کے حوالے سے چھ اصولی فرمان جاری کیے ہیں۔ سابقہ حکومتوں نے خواتین کو کبھی ایسے حقوق نہیں دیے۔ ہم نے کہا کہ خواتین سے زبردستی شادی جائز نہیں، دلہنوں کو مہر کی رقم ادا کی جائے، خواتین کو نکاح کے لیے مجبور نہ کیا جائے اور بیوہ سے زبردستی شادی نہ کرو۔ ہم خواتین کو وراثت میں حصہ دیتے ہیں۔‘

انہوں نے دعویٰ کیا کہ اب تک طالبان نے ’حدود‘ کے اسلامی سزا کے طریقہ کار کو نافذ نہیں کیا ہے جس میں سنگین سمجھے جانے والے جرائم کے خلاف عضا کاٹنا، کوڑے مارنا، سنگسار کرنا اور سزائے موت شامل ہے۔ یہ سزائیں 1990 کی دہائی میں طالبان کی پہلی حکومت میں عام تھیں۔

انہوں نے قندھار سے جاری آڈیو پیغام میں کہا: ’کل ہم حدود کے قانون نافذ کریں گے اور خواتین کو سرعام سنگسار کیا جائے گا۔ کل ہم حدود کے قانون کے تحت (مجرموں کو) سرعام کوڑے ماریں گے۔ یہ سب جمہوریت کے برعکس ہیں۔ اس کے لیے آپ کو لڑنے اور جدوجہد کرنے کی ضرورت ہو گی۔‘

ہبت اللہ اخوندزادہ نے دعویٰ کیا کہ افغانستان میں سابقہ حکومتوں نے خواتین کے حقوق پر توجہ نہیں دی۔

تاہم عالمی انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ حقیقت اس کے برعکس ہے جس کا دعویٰ طالبان کے سربراہ کر رہے ہیں کیوں کہ اگست 2021 میں اس گروپ کے اقتدار میں آنے کے بعد جبری شادیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

ہیومن رائٹس واچ میں خواتین کے حقوق کے ڈویژن کی ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر ہیتھر بار نے کہا کہ ’ہمیشہ کی طرح ہمیں طالبان کے اقدامات کو دیکھنا چاہیے نہ کہ ان کے الفاظ کو- خاص طور پر اس لیے کہ ہم نے انہیں خواتین کے حقوق کے حوالے سے ان کے نقطہ نظر کے بارے میں بار بار اشتعال انگیز جھوٹ بولتے دیکھا ہے۔‘

ان کے بقول: ’ہم زمین حقائق کی روشنی میں جانتے ہیں کہ طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد بچوں اور جبری شادیوں میں سنگین حد تک اضافے کی مصدقہ اطلاعات موجود ہیں۔‘

انہوں نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ’ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ بیواؤں اور عام طور پر خواتین کو انصاف تک تقریباً کوئی رسائی حاصل نہیں ہے اس لیے دستاویز پر ان کے لیے جو بھی حقوق ہو سکتے ہیں وہ عملی طور پر بے معنی ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ طالبان خواتین اور لڑکیوں کو ان کے مرد رشتہ داروں کی ملکیت کے طور پر دیکھتے ہیں اور وہ کسی ایسے نظام کو برداشت نہیں کریں گے جو مردوں کو ان کی ’ملکیت والی‘ خواتین اور لڑکیوں پر من مانی کرنے سے روکے۔

بار نے نشاندہی کی کہ یہ دعوے شاید ہی کوئی حیران کن ہوں کیوں کہ طالبان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد جو پہلا کام کیا ان میں سے ایک منظم طریقے سے اس پورے نظام کو ختم کرنا تھا جس میں پناہ گاہیں اور خصوصی قانون شامل ہیں جو خواتین کو صنفی بنیاد پر تشدد سے بچانے کے لیے بنائے گئے تھے۔

ان میں خصوصی عدالتوں اور پراسیکیوشن یونٹس کے لیے سماجی خدمات اور درحقیقت خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے سے متعلق 2009 کا قانون بھی شامل تھا۔

افغان خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی کارکن مریم معروف اروین نے 15 سالہ بچی کی ایک عمر رسیدہ شخص کے ساتھ شادی کی تصاویر شیئر کرتے ہوئے کہا کہ ’ہبت اللہ اخوندزادہ کے منہ سے نکلنے والے طالبان کے واضح فرمان ان حقوق کو بالکل نظر انداز کرتے ہیں اور خواتین کے خلاف ہزاروں جرائم کا باعث بنتے ہیں۔‘

انہوں نے تصدیق کی کہ طالبان کے دور حکومت میں خواتین کے لیے کچھ بھی نہیں ہوا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ خواتین کو محرم  کے بغیر سفر کرنے پر پابندی ہے۔ خواتین کو اب بھی حجاب پہننے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ یہ اقدامات خواتین کے حقوق کی واضح خلاف ورزی ہے اور ان کی بڑے پیمانے پر مذمت کی گئی ہے۔

افغانستان وومن اینڈ چلڈرن سٹرینتھن ویلفیئر آرگنائزیشن اور پرپل سیچرڈیز موومنٹ کی سربراہ معروف ارون نے کہا: ’اس سے  محض بین الاقوامی برادری اور اقوام متحدہ کو اس گروپ کے ساتھ بات چیت کے لیے دھوکہ دیا جا سکتا ہے۔ تمام بین الاقوامی سٹیک ہولڈرز اور اقوام متحدہ کے حکام کو افغانستان میں قریب سے دیکھنا چاہیے کہ اس ’وحشی گروہ‘ کے جرائم میں روز بروز کتنا اضافہ ہوا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

افغان صحافی اور افغانستان پر رپورٹنگ کرنے والی نیوز ویب سائٹ ’رخ شانہ‘ کی چیف ایڈیٹر زہرہ جوئیہ کہتی ہیں کہ ان کے پاس طالبان مردوں کی نہ صرف دوسری بلکہ تیسری شادی کرنے کی رپورٹس بھی موجود ہیں۔

انہوں نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’ہمارے پاس اس دعوے کو ثابت کرنے کے لیے کافی دستاویزات موجود ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ طالبان نے خواتین کے حقوق پر بہت اچھا کام کیا ہے۔ ان کی باتیں ان کے عمال کے بالکل برعکس ہے ہیں۔ ایک صحافی اور ایک خاتون کے طور پر میں ہمیشہ لوگوں سے رابطے میں رہتی ہوں، یہ بالکل جھوٹ ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’وہ خواتین کو گرفتار کر رہے ہیں، وہ خواتین کو گھروں میں رہنے پر مجبور کر رہے ہیں، ان کے لیے تعلیم اور ملازمت کے دروازے بند ہیں، یہاں تک کہ ان کے لیے تازہ ہوا میں سانس لینے کی جگہ بھی نہیں۔ مجھے صرف اتنا کہنا ہے کہ طالبان کی تمام قیادت جھوٹ بول رہی ہے۔‘

ستمبر 2021 میں، دو دہائیوں کی جنگ کے بعد افغانستان سے امریکی اور نیٹو فوجیوں کے انخلا کے ایک ماہ بعد طالبان نے اعلان کیا تھا کہ لڑکیوں کو چھٹی جماعت سے آگے تعلیم حاصل کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ انہوں نے دسمبر 2022 میں اس تعلیمی پابندی کو یونیورسٹیوں تک توسیع دے دی تھی۔

طالبان نے عالمی مذمت اور ان وارننگز کو مسترد کر دیا ہے کہ (خواتین پر) یہ پابندیاں ان کے لیے ملک کی بطور قانونی حکومت تسلیم کیے جانے کو تقریباً ناممکن بنا دیں گی۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین