دہائیوں پر محیط خونی تنازع کے بعد انڈیا کے شمالی شہر ایودھیا میں ہندو برادری تاریخی بابری مسجد کی جگہ پر رام جنم بھومی مندر کے افتتاح کی تیاری کر رہی ہے تاہم سپریم کورٹ کی جانب سے الاٹ متبادل جگہ پر مسجد کی تعمیر میں درپیش مشکلات کے باعث اس کا آغاز رواں برس مئی میں متوقع ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق مسجد کے منصوبے کی نگرانی کرنے والی انڈین مسلمانوں کی تنظیم انڈو اسلامک کلچرل فاؤنڈیشن (آئی آئی سی ایف) کی ڈویلپمنٹ کمیٹی کے سربراہ حاجی عرفات شیخ کا کہنا ہے کہ مسجد کی تعمیر رمضان کے بعد مئی میں شروع ہو جائے گی جو چار سال میں مکمل ہو گی۔
ہندو انتہا پسندوں نے 1992 میں شمالی ریاست اتر پردیش کے شہر ایودھیا میں 16 ویں صدی کی ایک مسجد کو یہ کہتے ہوئے مسمار کر دیا تھا کہ یہ اُس جگہ پر ایک قدیم مندر کے اوپر تعمیر کی گئی تھی جہاں سات ہزار قبل بھگوان رام نے جنم لیا تھا۔
اس تنازعے نے کئی دہائیوں تک مسلمانوں اور ہندووں کے درمیان تعلقات کو کشیدہ رکھا جب کہ مسجد کی مسماری کے بعد پھوٹنے والے مسلم کش فسادات میں دو ہزار افراد مارے گئے۔
انڈیا کی سپریم کورٹ نے 2019 میں ایک متنازع فیصلے میں بابری مسجد کی جگہ کو ہندوؤں کے حوالے کرنے اور اس کے متبادل مسجد کی تعمیر کے لیے شہر میں کسی اور جگہ زمین الاٹ کرنے کا حکم دیا تھا۔
عدالت نے یہ بھی کہا تھا کہ بابری مسجد کو گرانا غیر قانونی تھا۔ عدالتی فیصلے کے بعد تقریباً 18 کروڑ ڈالر کی لاگت سے مندر کی تعمیر فوری شروع کر دی گئی جس کے گراؤنڈ فلور کا افتتاح ہندو قوم پرست وزیر اعظم نریندر مودی 22 جنوری کو کریں گے۔
ادھر مسلم گروپس کو بابری مسجد کے مقام پر بنائے گئے رام مندر سے تقریباً 25 کلومیٹر دور ایک ویران جگہ پر مسجد کی تعمیر اور اس کے لیے فنڈ اکٹھا کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
آئی آئی سی ایف کے صدر ظفر احمد فاروقی نے روئٹرز کو بتایا: ’ہم نے فنڈز کے لیے کسی سے رابطہ نہیں کیا تھا اور نہ ہی کوئی عوامی تحریک چلائی۔‘
اس کے برعکس وزیر اعظم مودی کی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور اس سے منسلک ہندو گروپوں نے تین دہائیوں سے بھی زیادہ عرصہ قبل رام مندر کے لیے عطیات جمع کرنا شروع کیے تھے اور انڈیا میں چار کروڑ افراد اس فنڈ میں سے 30 ارب روپے سے زیادہ رقم جمع کرا چکے ہیں۔
آئی آئی سی ایف کے سیکریٹری اطہر حسین نے کہا کہ مسجد کے منصوبے میں اس لیے بھی تاخیر ہوئی کہ اس کے نقشے کو روایتی میناروں اور اسلامی فن تعمیر جیسی خصوصیات کو شامل کرنے کے لیے دوبارہ تیار کرنا پڑا۔
مسجد کے کمپلیکس سے متصل 500 بستروں پر مشتمل ہسپتال کا منصوبہ بھی بنایا گیا ہے۔
حاجی عرفات شیخ نے، جو بی جے پی کے مقامی رہنما بھی ہیں، کہا کہ مسجد کی تعمیر کے لیے آئندہ ہفتوں میں فنڈنگ ویب سائٹ شروع ہونے کی امید ہے۔
بابری کی بجائے اس مسجد کا نام ’مسجد محمد بن عبداللہ‘ پیغمبر اسلام کے نام پر رکھا گیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حاجی عرفات شیخ نے کہا: ’ہم عوام کے درمیان دشمنی اور نفرت کو ختم کرنے اور ایک دوسرے کے لیے محبت میں تبدیل کرنے کی کوشش رہے ہیں قطع نظر اس کے کہ آپ سپریم کورٹ کے فیصلے کو قبول کرتے ہیں یا نہیں۔
’اگر ہم اپنے بچوں اور لوگوں کو اچھی باتیں سکھائیں تو یہ ساری لڑائی ختم ہو جائے گی۔‘
ہندوؤں کا عقیدہ ہے کہ بھگوان رام کا جنم سات ہزار سال قبل ایودھیا کے اسی مقام پر ہوا تھا جہاں 16ویں صدی کے ایک مسلمان شہنشاہ بابر نے مندر گرا کر مسجد تعمیر کروائی، جسے بابری مسجد کہا جاتا تھا۔
بی جے پی نے عوامی مہم میں ایک اہم کردار ادا کیا، جس کی وجہ سے آخرکار مسجد کو مسمار کر دیا گیا۔
پارٹی کے سینیئر رہنما لال کشن اڈوانی نے اس مہم کے لیے ملک گیر رتھ نکالی تھی جس کا مقصد بابری مسجد کو مسمار کرنا تھا۔ بی جے پی کی مہمات کے نتیجے میں متعدد مذہبی فسادات نے جنم لیا۔
دوسری جانب شہر کی مسلم آبادی خوف کا شکار نظر آتی ہے۔ انڈیا کی شمالی ریاست اتر پردیش میں واقع شہر ایودھیا کی آبادی تقریباً 30 لاکھ ہے، جن میں سے پانچ لاکھ مسلمان ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ ان مسلمانوں کی تعداد کا کم از کم دسواں حصہ نئے تعمیر شدہ رام مندر کے قریبی علاقے میں رہائش پذیر ہے اور ان میں سے کچھ رہائشیوں نے کہا کہ وہ اب بھی ہندوؤں، خاص طور پر یاتریوں سے خوف زدہ ہیں، کیونکہ کوئی بھی واقعہ ممکنہ طور پر کسی بڑے واقعے میں تبدیل ہو سکتا ہے۔
کم از کم ایک درجن مسلمانوں نے کہا کہ انہوں نے مندر کی افتتاحی تقریب سے قبل اپنے اہل خانہ کو شہر سے باہر رشتہ داروں کے پاس بھیجنے کا منصوبہ بنایا ہے، جو 22 جنوری، 2024 کو ہونے والی ہے۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔