انڈیا کے ہندو قوم پرست وزیراعظم نریندر مودی پیر (22 جنوری) کو ایودھیا میں تاریخی بابری مسجد کے مقام پر بنائے گئے رام مندر کا افتتاح کرکے رواں سال ہونے والے الیکشن سے پہلے غیر سرکاری طور پر اپنی انتخابی مہم کا آغاز کرنے جا رہے ہیں۔
رام جنم بھومی نامی یہ مندر صدیوں پرانی بابری مسجد کی جگہ بنایا جا رہا ہے جسے 1992 میں انتہا پسند ہندوؤں نے مسمار کر دیا تھا اور جس کے نتیجے میں پھوٹنے والے مسلم کش فسادات میں دو ہزار سے زیادہ افراد مارے گئے تھے۔ اس واقعے نے سیکولر سیاسی نظام کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔
لیکن مودی کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے لیے اس متنازع مندر کی تعمیر دہائیوں سے جاری مہم میں ایک تاریخی لمحہ ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے گذشتہ ہفتے مندر کے افتتاح سے قبل 11 روزہ مذہبی رسومات کے آغاز پر کہا تھا: ’میں خوش قسمت ہوں کہ میں بھی اس شبھ موقع کا مشاہدہ کروں گا۔ بھگوان نے مجھے انڈیا کے تمام لوگوں کی نمائندگی کرنے کا ایک موقع فراہم کیا ہے۔‘
رام مندر کے افتتاح کے موقعے پر ارب پتی انڈین کاروباری شخصیات، معروف کرکٹر ویرات کوہلی، بالی وڈ کے بگ بی امیتابھ بچن اور دیگر بالی وڈ سٹارز سمیت مشہور شخصیات اور لاکھوں لوگوں کی شرکت متوقع ہے۔
نریندر مودی نے ایک دہائی قبل اقتدار میں آنے کے بعد سے ہندو قوم پرستی کو عوامی زندگی میں سب سے آگے لانے کی کوشش کی ہے۔
پارٹی کے رہنما باقاعدگی سے ہندوستان پر مسلمانوں کی صدیوں پر محیط حکومت کو ’غلامی کا دور‘ قرار دیتے ہوئے مذمت کرتے رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہندوؤں کا عقیدہ ہے کہ بھگوان رام کا جنم سات ہزار سال قبل ایودھیا کے اسی مقام پر ہوا تھا جہاں 16ویں صدی کے ایک مسلمان شہنشاہ بابر نے مندر گرا کر مسجد تعمیر کروائی، جسے بابری مسجد کہا جاتا تھا۔
بی جے پی نے عوامی مہم میں ایک اہم کردار ادا کیا، جس کی وجہ سے آخرکار مسجد کو مسمار کر دیا گیا۔
پارٹی کے سینیئر رہنما لال کشن اڈوانی نے اس مہم کے لیے ملک گیر رتھ نکالی تھی جس کا مقصد بابری مسجد کو مسمار کرنا تھا۔ بی جے پی کی مہمات کے نتیجے میں متعدد مذہبی فسادات نے جنم لیا۔
مزدوروں کا ایک بڑا گروپ مندر کے بیرونی حصے کو مکمل کرنے کے لیے دن رات کام کر رہا ہے، جس کی تعمیر کا تخمینہ 24 کروڑ ڈالر ہے۔
مودی کی جانب سے مندر کا افتتاح ایک بار پھر انہیں ہندو دھرم کے محافظ کے طور پر پیش کرے گا جو اپریل میں شروع ہونے والے عام انتخابات سے پہلے بظاہر ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا جا رہا ہے۔
توقع ہے کہ رام مندر کا افتتاح اگلے سال ہونے والے عام انتخابات میں ہندو قوم پرست بی جے پی کی کامیابی کے امکانات کو بڑھا دے گا، کیونکہ اس نے اپنی مہم کے دوران کیے گئے اہم وعدوں میں سے ایک کو پورا کیا ہے۔
اخبار ’دی ہندو‘ کی پولیٹیکل ایڈیٹر نسٹولا ہیبر نے اے ایف پی کو بتایا کہ افتتاحی تقریب حکمران جماعت کی ’مذہبی قوم پرستی‘ کو ظاہر کرے گی۔
ان کے بقول: ’افتتاح کے وقت کا تعلق اس حقیقت سے ہے کہ بی جے پی انتخابات میں جا رہی ہے۔‘
دوسری جانب شہر کی مسلم آبادی خوف کا شکار نظر آتی ہے۔ انڈیا کی شمالی ریاست اتر پردیش میں واقع شہر ایودھیا کی آبادی تقریباً 30 لاکھ ہے، جن میں سے پانچ لاکھ مسلمان ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ ان مسلمانوں کی تعداد کا کم از کم دسواں حصہ نئے تعمیر شدہ رام مندر کے قریبی علاقے میں رہائش پذیر ہے اور ان میں سے کچھ رہائشیوں نے کہا ہے کہ وہ اب بھی ہندوؤں، خاص طور پر یاتریوں سے خوفزدہ ہیں، کیونکہ کوئی بھی واقعہ ممکنہ طور پر کسی بڑے واقعے میں تبدیل ہو سکتا ہے۔
کم از کم ایک درجن مسلمان مردوں نے کہا کہ انہوں نے مندر کی افتتاحی تقریب سے قبل اپنے اہل خانہ کو شہر سے باہر رشتہ داروں کے پاس بھیجنے کا منصوبہ بنایا ہے، جو 22 جنوری 2024 کو ہونے والی ہے۔
مندر کے افتتاح کی تاریخ جیسے جیسے قریب آ رہی ہے،1992 میں فسادات کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے والے محمد شاہد کی تلخ یادیں بھی پھر سے تازہ ہو رہی ہیں، جنہوں نے اپنے خاندان کے قریبی افراد کو اس واقعے میں کھو دیا۔
محمد شاہد نے اے ایف پی کو بتایا: ’ہجوم نے میرے والد کا ایک سڑک پر پیچھا کیا۔ انہوں نے شیشے کی ٹوٹی ہوئی بوتل سے انہیں پیٹ پر مارا اور پھر ان پر مٹی کا تیل چھڑک کر انہیں زندہ جلا دیا۔ انہوں نے میرے چچا کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا۔‘
محمد شاہد مزید کہتے ہیں: ’(رام مندر کا افتتاح) ہمارے ہندو بھائیوں کے لیے ایک اچھا دن ہے، لیکن ہمارا کیا ہوگا؟ ان پرانی چیزوں سے۔۔۔ ہم میں سے جو لوگ برباد ہو گئے، یقیناً ہمیں تکلیف ہو گی۔ اس دن ہمارے والد کو مار دیا گیا اور ہماری مسجد کو بھی مسمار کردیا گیا تھا۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔