ڈراما ’سٹینڈ اپ گرل‘ مکمل طور پہ فن کار طبقے کے مسائل پہ مشتمل ہے۔
اس میں کری ایٹو بلاک، شاعری، موسیقی، گیتوں کی کمپوزنگ، تحریر یا کسی گیت کی دھن کا چوری ہو جانا، کسی چور فنکار کا چھا جانا، کسی اصل استاد کا وقت کی گرد میں گم ہو جانا، حکومت کا فن کاروں کے لیے امداد کرنا، فن کاروں کو اپنے حقوق کا علم نہ ہونا، فن کار جن کی دنیا فین ہوتی ہے ان کی ذات اور گھروں میں ان کے فن کی وجہ سے پیش آنے والے مسائل اجاگر کیے گئے ہیں اور ایسے پیش کیے گئے ہیں کہ دیکھنے والا ہضم بھی کر لے۔
یہ کام آسان نہیں تھا مگر پروڈکشن کمپنی اس منزل سے خوش اسلوبی سے گزر گئی ہے۔
کہتے ہیں کہ بہت قریب سے بھی تصویر دھندلا جاتی ہے، یہاں ایسا ہی ہوا ہے۔ دوست، یار، رشتے دار، دشمن، اپنے پرائے، غیر اور غیروں میں چھپے اپنے سب یہاں دکھائی دے رہے ہیں۔
’سٹینڈ اپ گرل‘ ایک مزاحیہ ڈراما سیریز ہے۔ سٹینڈ اپ کامیڈین ہونا کوئی آسان کام نہیں ہے۔
اس قسم کی کامیڈی، جس میں ایک فنکار سٹیج پر کھڑا ہو کر لوگوں کو مزاحیہ تفریح فراہم کرتا ہے، کا آغاز 18ویں صدی میں امریکہ سے ہوا اور پھر یہ ہر سو پھیل گئی۔
امریکہ اس شعبے میں سب سے آگے ہے اور وہاں بڑے اہم لوگوں نے سٹینڈ اپ کامیڈی کے ذریعے اپنی پہچان بنائی ہے، البتہ خواتین وہاں بھی اس شعبے میں خال خال ہی ہیں۔
ایسے میں ہمارے ہاں ڈراما بنا، جس کا مرکزی کردار زارا نامی ایک لڑکی ہے، جو اسلام آباد میں پلی بڑھی ہے اور یونیورسٹی کے سٹیج پہ سٹینڈ اپ کامیڈی کرتی رہی ہے۔
مذاق میں کہے ہوئے جملوں کی وجہ سے اسے یونیورسٹی سے نکالا بھی جاتا ہے اور حالات ایسے بنتے ہیں کہ اس کی ماں کینسر سے لڑتی لڑتی اس دنیائے فانی کو چھوڑ جاتی ہے اور زارا کو اپنے باپ امیر علی خان کے سپرد کر دیتی ہے۔
زارا کو اپنی ماں سے ہسپتال میں ہی علم ہوتا ہے کہ جو لوگ ہسپتال میں ہیں، وہ اس کے نانا اور ماموں ہیں۔
اس کی ماں عمر بھر اس سے اپنی اصلیت چھپا کے رکھتی ہے کہ وہ ایک سٹینڈ اپ کامیڈین امیر علی خان کی بیٹی ہے، جس کی اپنے دور میں بطور فنکار اپنی پہچان تھی۔
اس کے ایک ماموں بھی سٹیج اداکار ہیں، لیکن گزر بسر کے لیے رکشہ چلاتے ہیں۔
اس کی ماں نے جو مثالی خواب بنے ہوئے تھے، وہ بیٹی کو اتنے سنائے کہ اس کے لیے اصل زندگی کو قبول کرنا دشوار ہو گیا ہے۔ اس کی ماں نے تو اسے بتایا تھا کہ اس کے نانا کوئی بہت خاندانی و دھیمے مزاج کے انسان ہیں۔ اس کے ماموں سول سروس میں ہیں لیکن جب وہ اسلام آباد سے اچانک اور حادثاتی طور پہ اندرون لاہور آتی ہے تو الجھ جاتی ہے۔
وہ کسی طور یونیورسٹی میں داخلہ لے لیتی ہے۔ نانا اس کے ساتھ جاتے ہیں تو پرنسپل پہچان لیتا ہے کہ یہ تو اپنے وقت کے بہت بڑے سٹیج کامیڈین رہے ہیں۔
زارا کو حیرت تو ہوتی ہے کیونکہ وہ تو اپنے نانا اور ماموں کو ان کے ظاہری حال اور رہن سہن سے پہچاننے کی کوشش میں ہے، جو سب اپنے حال میں مست زندگی گزار رہے ہیں، جن سب کی زندگی میں زارا کے آنے سے ہلچل مچ گئی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
زارا کی ماں نے برسوں پہلے اس شناخت سے منہ موڑ کر کسی سے شادی کر لی تھی، اس کے بعد اس کا رابطہ کبھی بھی خاندان سے نہیں رہا۔
اس کی خالہ طلاق کے بعد اپنے ابا اور بھائیوں کے پاس ہی رہ رہی ہے۔ امیر علی خان کے بہت شاگرد ہیں۔ ایک ان کے ساتھ بھی رہتا ہے۔ ایک شاعر حضرت پڑوس میں مقیم ہیں لیکن اندرون لاہور کے روایتی مل جل کے رہنے والی تہذیب کے مطابق امیر علی خان کے گھر میں ہی پائے جاتے ہیں۔
ابھی کہانی اور کرداروں کی بہت سی گرہیں کھلنی ہیں۔ خواب سب کے پاس ہیں۔ یہاں سب کچھ ہے، بس ڈگری والی تعلیم نہیں ہے۔
سٹنیڈ اپ کامیڈین بننا یا ہونا زارا کو ورثے میں ملا ہے۔ یہ اس کی چوائس یا مجبوری بعد میں بنتا ہے۔ اسے بھی اپنی بقا کے لیے بطور سٹنیڈ اپ کامیڈین زندگی شروع کرنا پڑ رہی ہے۔
کبیر اسے اسلام آباد میں ملا تھا۔ لاہور میں اسے پھر ایک کیفے میں مل جاتا ہے۔ یہ کیفے بھی کبیر کے دوست کا ہی ہے، جہاں سے زارا اور کبیر اپنی فنی زندگی کا آغاز کرنے جا رہے ہیں۔
کبیر ایک تخلیق کار ہے، شاعر اور موسیقار ہے، لیکن ابھی وہ اپنے تخلیقی بندش کے دور سے گزر رہا ہے، جو زرا کے آنے سے اچانک ٹوٹ جاتا ہے۔ دونوں بحران سے گزر رہے ہیں، یوں دوست بن جاتے ہیں۔
کبیر پنجاب کے کسی زمنیدار گھرانے کا سپوت ہے، جس کا کردار 10 اقساط تک ادھورا ہی ہے۔ کھل کر سامنے نہیں آیا کیونکہ مرکزی کردار زارا کا ہے۔ وہ اور اس کا گھرانہ ہی ابھی تک سکرین کی زینت بنے ہوئے ہیں۔
ایک تہذیبی فرق کے اچانک نمودار ہونے سے ڈراما جھٹکے کے آفٹر شاکس سے نہیں نکل پا رہا۔
ڈراما عام ناظر کو ہنسی اور حیرت میں مبتلا کر جاتا ہے، اسے یہ سب ماحول دشوار گزار لگتا ہے، لیکن ڈراما تہہ در تہہ کھلے گا۔ 10 اقساط تک تو صرف تعارف پیش کیا گیا ہے۔ کہانی کو زمین کا جواز دیا گیا ہے، کرداروں نے جڑیں پکڑی ہیں اور اگر کسی نے تین تہذیبوں کو اتنے قریب سے نہیں دیکھا، جتنے قریب سے ڈرامے میں دکھا دیا گیا ہے تو یقین کریں وہ سچا ہے کہ ڈراما سمجھ نہیں آ رہا۔
اسلام آباد کی ایک تہذیب جو پچھلے 50 سال میں بنی ہے، جہاں سب کچھ اونچے اونچے پہاڑوں کی گود میں چھپ جاتا ہے۔ وہ سب کا ماضی چھپا لیتا ہے اور انسان نئی سی نشیلی خنک زندگی گزارنے لگتا ہے، لیکن آخر کار اس انسان کی جڑیں بول ہی پڑتی ہیں۔ کوئی تیز آندھی سب پردے اڑا لے جاتی ہے۔ سب خواب حقیقت کی طرف پلٹ جاتے ہیں۔
دوسری طرف کبیر کے گھرانے کی پنجابی زمیندارانہ تہذیب ہے۔ خالص پنجاب کی الگ ایک تہذیب ہے جس کا دل بہت بڑا ہے اور اس کے زخم بھی اتنے ہی بڑے ہیں۔ کبیراپنی امارت چھوڑ چھاڑ کر اپنی آرٹ کی محبت میں کرائے کے ایک کمرے میں رہ رہا ہے۔ اس کے گھر والوں سے اختلافات ہیں، بالکل وہی اختلافات جو ایک آرٹسٹ کو اپنے گھر والوں سے ہوتے ہیں۔
سٹینڈ اپ گرل کے مکالمے بولڈ مگر بھاری ہیں۔ فوری طور پہ مکالمہ اوپر سے گزر سکتا ہے، پھر اچانک دماغ میں بلب کی طرح روشن ہو جاتا ہے۔
تیسری تہذیب اندرون لاہور میں بسنے والے ماضی کے آرٹسٹ گھرانوں کی ہے، کبھی جن کا نام مقام تو بہت تھا کیونکہ مزاح یا فن ان کی گھر کی کھیتی تھی، جو گھر میں اور آس پڑوس میں پنپتی رہتی تھی لیکن وقت کی دوڑ میں یہ فن کار پیچھے رہ گئے کیونکہ یہ وقت کی تیزی اور نئے پن کا ساتھ نہیں دے پا رہے تھے اور اس کے سوا ان کو کام بھی کوئی نہیں آتا تھا، اسی لیے وہ اسی فن کے ساتھ کسی نہ کسی طرح جڑے ہوئے ہیں۔
تین تہذیبیں ہیں اور تین زبانوں میں ہی ڈراما لکھا گیا ہے۔ پنجاب اور اندرون لاہور کی تہذیب الگ ہے، گرچہ اندرون لاہور کی زبان پنجابی ہی ہے۔
اویس احمد اورعدیل افضل نے سکرپٹ لکھا ہے۔ کانٹینٹ انچارج ساجی گل ہیں۔ مکالمے بولڈ مگر بھاری ہیں۔ فوری طور پہ مکالمہ اوپر سے گزر سکتا ہے پھر اچانک دماغ میں بلب کی طرح روشن ہو جاتا ہے۔
موسیقی جدید ہے اور کہیں کہیں یہ میوزیکل ڈراما بھی لگتا ہے۔ ظاہر ہے جس ڈرامے کا ہیرو پاپ سنگر، میوزیشن اور شاعر ہو گا، وہاں موسیقی تو ہو گی۔
ہر آرٹ کی دو تصویریں دکھائی گئی ہیں، تصویر کے دونوں رخ جو ہمیں بہت کم نظر آتے ہیں۔ ہمیں محض گلیمر دکھائی دیتا ہے، اس کے پیچھے کی جنگ ڈرامے میں نزاکت سے دکھائی گئی ہے۔
مرکزی کردار گرچہ سہیل احمد کا نہیں ہے لیکن وہی کردار سب سے اہم کردار ہے۔ بڑی اور سینیئر کاسٹ کا ڈراما ہے۔ ایک خاص مزاج رکھے بنا ہم اس کا لطف نہیں لے سکتے۔ مزاح کا معیار عامیانہ نہیں ہے۔ زارا نور عباس کردار کو عمدگی سے نبھا گئی ہیں، البتہ لگتا ہے کہ کہیں کہیں پھسل جاتی ہیں۔
’سینڈ اپ گرلز‘ کے نام سے زمبابوے سے بھی ایک ڈراما سیریز 2017 میں بہت کامیابی حاصل کر چکی ہے۔
ڈراما روایتی تکنیک سے الگ ہٹ کر ہے، اس میں روانی ہے اور چونکا دینے والے سین پہ قسط کا اختتام نہیں ہوتا، نہ ہی کسی قسط کا آغاز ایسا ہے۔
ڈائریکٹر کاشف نثار ہیں۔ گرین انٹرٹینمنٹ سے ڈراما ہر جمعرات اور جمعے کو مسکراہٹ اور فکرانگیزی لے کر نشر ہوتا ہے جس نے فن کاروں کے مسائل کو ابھی مزید اجاگر کرنا ہے۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔