نسل در نسل قربانی، تمہارے حسن کے نام

ڈرامے میں نیشل کالج آف آرٹس کے اندر کہانی بنی گئی ہے جو دو نسلوں پہ محیط ہے۔ ایک نسل 90 کی دہائی کی تو دوسری اکیسویں صدی کی ففتھ جنریشن یا ہائبرڈ نسل کہلاتی ہے۔

ڈرامے میں صبا قمر اور عمران عباس نے مرکزی کردار ادا کیے ہیں (تمہارے حسن کے نام فیس بک پیج)

’تمہارے حسن کے نام‘ وہ ڈراما ہے جس پہ بات کرنے کے لیے سب سے اہم نکتہ یہی ہے کہ لاہور کالجوں کا شہر ہے لیکن ڈرامے میں اس حوالے کو کم ہی استعمال کیا گیا۔

جب بھی لاہور شہر پہ ڈراما بنایا جاتا ہے تو اندرون لاہور کی ثقافت کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ فلم بنی تو اندرون لاہور پہ ہی بنائی جاتی ہے۔

بیرون لاہور کی ایک اپنی ثقافت اور رومان ہے جو اس ڈرامے میں نظر آیا ہے گرچہ ڈراما رومانوی ہے مگر ثفافت افسانوی نہیں ہے۔ جیتے جاگتے ایسے بہت سے کردار مال روڈ کے کالجوں کی روایت میں مل جاتے ہیں۔

یہ ڈراما حکیم نیر واسطی کے ناول ’اختر اور سلمیٰ‘ پہ مبنی ہے جو 1930 میں شائع ہوا تھا۔

ڈرامے میں نیشل کالج آف آرٹس کے اندر کہانی بُنی گئی ہے جو دو نسلوں پہ محیط ہے۔ ایک نسل 90 کی دہائی کی تو دوسری اکیسویں صدی کی ففتھ جنریشن یا ہائبرڈ نسل کہلاتی ہے۔

ایک نسل روایتی ہے۔ ایک نسل روایت شکن ہے لیکن روایت شکن نسل کی بنیاد روایت میں پسی ہوئی نسل نے رکھی ہے، جو بعد میں اس پسی نسل کی اپنی روایتیں ان ہی دلائل پہ توڑنے پہ مجبور ہو جاتی ہے، جن دلائل پہ انہوں نے اس ففتھ جنریشن کو پروان چڑھایا ہے۔

زندگی کا حسن یہی ہے کہ اپنے فلسفے کو آپ بھی برتا جائے۔

نیشنل کالج آف آرٹس کے دل میں ایسے روایت شکن رومان کی ایک لمبی داستان ہے، یہی داستان بیرون لاہور کی کہانی ہے جو بارہ دروازوں سے باہر کی الگ دنیا، الگ تہذیب ہے۔

سلمیٰ اور سکندر کالج میں کلاس فیلو تھے۔ دوستی شاعری سے، پنٹنگز سے محبت کے ساتھ ساتھ شادی کے خواب میں بدل گئی۔ ایسے خوابوں میں ہیرو غریب ہو تو ہمیشہ لڑکی پہ بےوفائی کی مہر لگ جاتی ہے۔ ایک رقیب آتا ہے اور محبت سے نکل کر زندگی سفاکیت کی ڈگر پہ سفر کرتی ہے لیکن خواب تو خواب ہی ہوتے ہیں۔

انسان ان کو کبھی نہیں بھولتا۔ ان کی تعبیر کا جگنو اس کے اندر ٹمٹماتا رہتا ہے، روشن رہتا ہے اور روشنی امید کی کہانی سمجھی جاتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سلمیٰ کی شادی اس کی سہیلی منزہ کے امیر ہیرو عاطف سے ہو جاتی ہے اور سکندر اس کی سہیلی منزہ سے شادی کر لیتا ہے۔ وہ ایک کامیاب آرکیٹیکٹ بن جاتا ہے۔ برطانیہ مقیم ہو جاتا ہے۔ اس کے گھر ایک بیٹا عمر پیدا ہوتا ہے جس کی نفسیات ہر بیٹے کی طرح ماں کی نفسیات سے میل کھاتی ہے جب تک کہ وہ خود باپ کے مردانہ تجربے سے نہیں گزر جاتا کہ اسے ایک لڑکی چھوڑ کے جا چکی ہےاور وہ اسے بھول نہیں پا رہا۔

جب باپ کسی لڑکی کو بھول نہیں پاتا تو وہ سمجھتا ہے کہ اس کی ماں کے ساتھ زیادتی ہوگئی ہے۔ جب سارا اس کو چھوڑ کے جاتی ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ یہ فطری بھی ہو سکتا ہے۔

اس کی ماں منزہ کا کینسر سے انتقال ہو جاتا ہے۔

کراچی میں وہ باپ سے الگ رہنے لگتا ہے اور سیٹل بھی ہو جاتا ہے۔

سلمیٰ بعد میں جس کالج سے پڑھی تھی وہیں پڑھانے بھی لگتی ہے۔ اس کے گھر بیٹی سارا پیدا ہوتی ہے جو اپنے قدموں پہ کھڑی ہے۔ اس کے والدین کی طلاق ہو چکی ہے۔

اس کو بھی اپنی ماں کی طرح ہی اپنے باپ سے نفسیاتی مسائل ہیں لیکن وہ ان سے اوپر بہت اوپر زندگی کو سوچنے کے قابل ہو چکی ہے کیونکہ ماں کی تربیت اور آزادی نے اسے زندگی کی روانی کے حوالے جلد کر دیا تھا۔

عمر اور سارا شادی کا فیصلہ کر لیتے ہیں۔

دوسری طرف سلمیٰ اور سکندر بھی ایک بار پھر نیشل کالج میں ملتے ہیں اور ایک نئی زندگی شروع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

لیکن جونہی ان کو علم ہوتا ہے کہ ان کے تو بچے آپس میں شادی کرنا چاہتے ہیں تو وہ ایک بار پھر اپنے جذبات اور زندگی کی قربانی دیتے ہوئے اپنے بچوں کے حق میں دستبردار ہو جاتے ہیں۔

سب کہانیاں اس روایت پہ خوشی خوشی ختم ہو جاتی ہیں۔ یہ ڈراما اس روایت سے ہی جنم لیتا ہے۔ اس روایت شکنی کے آخری لمحات کے لیے ہی اتنی لمبی کہانی بنی گئی ہے۔

سارا کو عین شادی کے وقت کسی طرح علم ہو جاتا ہے کہ وہ سلمیٰ اور سکندر کے درمیان آ گئی ہے۔ وہ شادی ختم کر کے کراچی واپس چلی جاتی ہے اور معاملہ فہمی سے کام لیتے ہوئے ماں کو تنہائی کی اس منزل پہ لے جاتی ہے جہاں وہ ایک بار پھر زندگی کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے سکندر کو شریک سفر قبول کر لیتی ہے اور اپنی بیٹی کو بھی بتا دیتی ہے۔

والدین کی آپس میں شادی اور پھر بچوں کی آپس میں محبت اور شادی۔ ابھی سماج اس سطح پہ سوچنے کے قابل نہیں ہوا لیکن ڈرامے سے بہت ہنر مندی اور سلیقے سے روایت کو توڑ دیا ہے۔

ڈراموں میں اس وقت روایت شکنی کا چلن عام ہے اور زندگی بھی اس طرف قدم بڑھا رہی ہے۔

لیکن ایک سوچنے کی بات ہے ’بوا‘ جیسے کرداروں کی زندگی کی نفی اس پوری روایت شکنی میں کہیں سوال کیوں نہیں بنتی؟

صبا قمر اور ماہا حسن نے جہاں اپنے کرداروں کو خوب نبھایا ہے وہاں دونوں نے ایک آرٹسٹ عورت کے لباس، زیور، میک اپ، بالوں کے انداز پہ بھی توجہ دی ہے۔ صبا قمر نے تو حسن کی انتہا کر دی ہے۔

بہت خوبصورت لباس اور زیورات کا انتخاب کیا ہے۔ بہت کلاسیکل انداز دیکھنے کو ملا ہے۔

 

کالجوں کے شہر کا ایک نفیس سا کلچر شہر کی چکا چوند میں ماند پڑ جاتا ہے لیکن ڈرامے میں دو نسلوں والی مشقت کے باوجود اس کا حسن زندگی کے حسن کی طرح برقرار ہے۔

ایک آرٹسٹ عورت و مرد کو ایک آرٹسٹ مرد یا عورت ہی ہضم ہوتے ہیں، انہیں دنیا داریاں راس نہیں آتی اس لیے یہ ڈراما بنیادی طور پہ آرٹ اور آرٹسٹک تہذیب کا نمائندہ ہے۔

ناول کو سکرپٹ میں سارا قیوم اور عمیرہ احمد نے ڈھالا ہے۔ ڈائریکٹر ثاقب خان ہیں۔

موسیقی بہت عمدہ ہے۔ شاعری بہت کمال ہے۔ سعد سلطان اور سہیل شہزاد کی شاعری ہے۔

ڈراما گرین انٹرٹیمنٹ سے نشر ہو رہا ہے جس نے ایک ناول کو زندہ و تعبیر کر دیا ہے۔ اس ناول نے لاہور کی ایک تہذیب کو بہار کر دیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹی وی