انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ کے گاؤں وٹی پورہ کے رہائشی محمد اسماعیل ’نیوٹن‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں، جس کی وجہ ان کی نت نئی اختراعات ہیں۔
60 سالہ محمد اسماعیل نے نہ صرف روایتی کشمیری کانگڑی میں نئی جان ڈالی ہے، بلکہ اسے حفاظتی خصوصیات کے ساتھ جدید بھی بنا دیا ہے۔
کشمیر کے لوگ سرد موسم کا مقابلہ کرنے کے لیے روایتی طریقے اپناتے ہیں اور اپنے آپ کو گرم رکھنے کے لیے کوئلے سے بھرا روایتی برتن استعمال کرتے ہیں، جسے مقامی طور پر کانگڑی یا کانگیر کہا جاتا ہے۔
تاہم روایتی کانگڑی کی وجہ سے ہونے والے متعدد افسوس ناک واقعات نے محمد اسماعیل کو اس حوالے سے کام کرنے کی ترغیب دی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
محمد اسماعیل نے بتایا کہ ’روایتی کشمیری کانگڑی میں مسئلہ یہ تھا کہ اس سے کپڑے جل جاتے تھے اور بستر پر گرنے سے حادثات ہو جاتے تھے۔ مریض اس کو استعمال نہیں کر سکتے تھے۔ ہر ایک صورت میں اس میں مسئلے ہی تھے، بس ایک فائدہ یہ تھا کہ وہ گرمی دیتی تھی۔‘
انہوں نے بتایا کہ کشمیر میں کئی کئی دن تک بجلی نہیں ہوتی، لہذا لوگوں کو مجبور ہو کر گرمی کے لیے کانگڑی لینی ہی پڑتی ہے۔
’تو پھر میں سوچا کہ میں اس کو محفوظ بناؤں۔ سب سے پہلے میں نے اس میں نئی حفاظتی خصوصیت کا اضافہ کیا کہ اگر یہ الٹ بھی جائے یا گر بھی جائے تو اس میں موجود آگ نہیں گرے گی، نہ ہی کوئی نقصان ہوگا۔
’دوسرا جو مریض بستر پر ہیں ان کے لیے یہ اب محفوظ ہے۔ تیسرا یہ کہ ہمارے یہاں اکثر بجلی نہیں رہتی اور رات کو اگر کوئی گرم پانی استعمال کرنا چاہے تو اس کے اوپر پانی رکھ دیں تو اس سے پانی گرم ہو سکتا ہے۔‘
محمد اسماعیل نے بتایا کہ ’جو کانگڑی میں نے بنائی ہے، اس میں ایندھن کے استعمال کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت بھی ہے۔ اس میں کوئلے کے استعمال کو کم اور زیادہ بھی کیا جا سکتا ہے۔‘
ساتھ ہی ان کا کہنا تھا: ’اس کے علاوہ اور بھی خصوصیات اس میں شامل کرنی ہیں، ابھی کام چل رہا ہے۔ اس کانگڑی میں تین تہہ ہیں، پہلی تہہ جس میں آگ ہوتی ہے، دوسری میں پانی اور تیسری تہہ خشک شاخوں کی ہوتی ہے۔ اسے ہم نے اسی طرح سے بنایا ہے کہ اگر کوئلہ زیادہ گرم ہوگا تو پانی اس کو جذب کرے گا اور اگر پانی زیادہ گرم ہوجائے تو خشک شاخوں کی تہہ اسے قابو کر لیتی ہے۔‘
اس کانگڑی کو استعمال کرنے والے محمد رمضان بتاتے ہیں کہ ’اس کشمیری کانگڑی میں ہم پانی بھی گرم کرسکتے ہیں۔ ہمارے گھروں میں جو حادثات ہوتے تھے، وہ نہیں ہوں گے کیونکہ اس کے اوپر اب ڈھکن لگا ہوا ہے۔ اگر کانگڑی گر بھی جائے گی تو نقصان نہیں ہوگا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ کشمیری کانگڑی روایت کے ساتھ جدید بھی ہے، ہمیں ایسی چیزوں کو فروغ دینا چاہیے۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔