کراچی کے قریب واقع کیرتھر نیشنل پارک میں منگل (23 جنوری) کی شب اہل علاقہ کی فائرنگ سے مرنے والے تیندوے کی لاش کو سائنسی بنیاد پر حنوط کرنے کے بعد وائلڈ لائف میوزیم میں رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
محکمہ جنگلی حیات سندھ کی ٹیم نے بدھ کو تیندوے کی لاش کو جام شورو کی عدالت میں پیش کیا تھا، جسے پھر عدالت کی ہدایت پر کراچی منتقل کردیا گیا۔
محکمہ جنگلی حیات کے مطابق کیرتھر نیشنل پارک میں تیندوا تقریباً 50 سال بعد نظر آیا تھا۔
وائلڈ لائف پولیس پروٹیکشن کے انسپیکٹر غفار خان جمالی کے مطابق انہیں اطلاع ملی کہ کیرتھر نیشنل پارک میں کانبھو پہاڑی کے قریب بچل سونہیرو میں گاؤں والوں نے فائرنگ کرکے ایک جانور کو ہلاک کر دیا ہے۔
بقول غفار خان: ’کسی نے بتایا کہ لگڑ بھگا ہے تو کسی نے چیتے یا بھیڑیے کی موت کی اطلاع دی۔‘
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں غفار خان جمالی نے بتایا: ’میں اپنی ٹیم کے ساتھ دفتر سے نکلا اور تقریباً 40 منٹ کے سفر کے بعد وہاں پہنچا تو تیندوے کی لاش دیکھی اور کچھ لوگ لاش کے ساتھ سیلفیاں بنا رہے تھے۔
’بچل سونہیرو تقریباً پانچ ہزار آبادی والا گاؤں ہے۔ جب ہم پہنچے تو گاؤں کے لوگوں نے بتایا کہ تیندوا گاؤں میں داخل ہوا تھا اور مویشیوں پر حملہ کیا، اس لیے اسے ہلاک کر دیا گیا، مگر تیندوے کی لاش گاؤں سے آدھے کلومیٹر دور ملی۔ ابتدائی طور پر گاؤں کی رہائشیوں نے لاش اپنے پاس رکھنے کی ضد کی، مگر بعد میں سمجھانے پر لاش ہمارے تحویل میں دے دی گئی۔‘
محکمہ جنگلی حیات نے تیندوے کی ہلاکت کی فرسٹ آفینس رپورٹ (ایف او آر) دائر کی جس میں قادر بخش، غلام حسین اور تین نامعلوم افراد کو نامزد کیا گیا۔ بدھ کو ایف او آر اور تیندوے کو جامشورو کی عدالت میں پیش کیا گیا، جہاں سے تیندوے کی لاش کو کراچی منتقل کر دیا گیا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ تیندوے کو 12 بور بندوق کی تین گولیاں لگیں۔ یہ ایک نر تیدوا تھا جو پانچ فٹ 19 انچ لمبا اور اس کی عمر تقریباً پانچ سال تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہلاک ہونے والا تیندوا کیرتھر نیشنل پارک میں تقریباً 50 سال بعد نظر آیا۔
محکمہ جنگلی حیات سندھ کے کنزرویٹر جاوید احمد مہر کے مطابق 1976 میں ایک شکاری نے کیرتھر نیشنل پارک میں ایک تیندوے کو ہلاک کیا تھا، جس کے 48 سال بعد یہ تیندوا نظر آیا جسے منگل کو ہلاک کر دیا گیا۔
غفار خان جمالی کے مطابق کیرتھر نیشنل پارک کے رہائشیوں نے انہیں کئی بار تیندوے کی موجودگی کی اطلاع دی، مگر کسی بھی فرد کو تیندوا نظر نہیں آیا۔
ایک سروے کے دوران غفار خان جمالی نے پاؤں کے نشانات دیکھے تھے مگر کسی نے تصدیق نہیں کی کہ وہ پاؤں کے نشانات تیندوے کے تھے یا کسی اور جانور کے تھے۔
تیندوے کی موجودگی کیرتھر میں حیاتاتی تنوع کی بہتری کی نشانی
جاوید احمد مہر کے مطابق تیندوے کی کیرتھر نیشنل پارک میں موجودگی سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہاں حیاتاتی تنوع میں بہتری آئی ہے۔
’تیندوا وہیں نظر آتا ہے جہاں اس کے شکار کے لیے جانور وافر مقدار میں ہوں اور وہ جانور اس وقت ہی بڑھتے ہیں جب وہاں گھاس زیادہ ہو اور بہتر ماحول ہو۔ گذشتہ چند سالوں میں شدید بارشوں کے بعد کیرتھر میں مسلسل ہریالی ہے اور جانوروں کے تحفظ کے باعث ان کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔‘
جاوید احمد مہر کے مطابق ہلاک ہونے والا تیندوا مقامی ہے اور تاریخی طور پر کیرتھر نیشنل پارک میں تیندوے کی موجودگی تصدیق شدہ ہے، مگر پوسٹ مارٹم کے بعد لیبارٹری رپورٹ سے پتہ چلے گا کہ اس تیندوے کا تعلق کس نسل سے ہے۔
تیندوے کی ہلاکت کی کتنی سزا؟
کیرتھر نیشنل پارک میں ہلاک ہونے والے تیندوے کا مقدمہ سندھ وائلڈ لائف پروٹیکشن، پریزرویشن، کنزرویشن اینڈ مینیجمنٹ ایکٹ 2020 کے تحت دائر کیا گیا ہے۔
اس قانون کے تحت سندھ میں جنگلی جانوروں کو غیر قانونی طور پر پکڑنے یا شکار کرنے پر انتہائی بھاری خون بہا اور جرمانے عائد کیے گئے ہیں۔
اس قانون کے تحت چیتے کی ہلاکت کا جرمانہ 12 لاکھ روپے اور پانچ سال قید یا دونوں سزائیں ہوسکتی ہیں۔ آئی بیکس کے غیر قانونی شکار پر خون بہا کی قیمت کم از کم سات لاکھ روپے جبکہ اڑیال کی قیمت 14 لاکھ روپے تک وصول کی جائے گی۔
اسی طرح چنکارا ہرن کی قیمت دو لاکھ روپے، جنگلی گدھے کی قیمت پانچ لاکھ روپے، جنگلی بھیڑیے کی پانچ لاکھ روپے، کالے ہرن کی ڈھائی لاکھ روپے، خرگوش کی قیمت 20 ہزار روپے، انڈس ڈولفن کے غیر قانونی شکار کرنے پر خون بہا کی قیمت پانچ لاکھ روپے مقرر کی گئی ہے۔
ہلاک ہونے والا تیندوا پرشیئن نسل کا ہو سکتا ہے
جانوروں کے تحفظ پر 2004 سے کام کرنے والی کراچی کی تنظیم فیلڈ سپورٹس اینڈ کنزرویشن سوسائٹی کے سیکریٹری اظہر احمد خان کے مطابق سندھ میں نہ صرف کیرتھر نیشنل پارک بلکہ دیگر خطوں بمشول صحرائے تھر میں بھی تیندوے پائے جاتے ہیں۔
’دریائے سندھ کے مشرق کی جانب پائے جانے والے تیندوے انڈین لیپرڈ اور مغرب کی جانب پائے جانے پرشیئن لیپرڈ ہیں، اس لیے زیادہ امکان ہے کہ یہ لیپرڈ بھی پرشیئن نسل کا ہو۔‘
اظہر احمد خان کے مطابق جنگلی حیات کے تحفظ والی جگہ پر کیے جانے والے اقدامات میں تیندوے کو پہلی درجہ بندی یا اپیکس سپیشیز میں گنا جاتا ہے۔
کیرتھر میں تیندوے کے ساتھ آئی بیکس، چنکارا ہرن، لگڑ بھگا، بھیڑیا، لومڑی اور کچھ جنگلی بلیاں اپیکس سپیشیز میں شامل ہیں۔
اظہر احمد خان نے مزید بتایا کہ ’تیندوا انسانی آبادی میں داخل نہیں ہوتا، اس لیے نظر آنے کی صورت میں ہلاک کرنے کے بجائے محکمہ جنگلی حیات کو اطلاع کریں تاکہ وہ اس جانور کو کسی اور جگہ منتقل کردیں۔‘
کیرتھر نیشنل پارک کی اہمیت کیا ہے؟
کیرتھر نیشنل پارک سندھ میں کراچی اور جامشورو کے درمیان پہاڑی سلسلے پر پھیلا ہوا ایک وسیع پارک ہے، جس کا شمار پاکستان کے بڑے نیشنل پارکوں میں ہوتا ہے۔
محکمہ جنگلی حیات سندھ کے مطابق یہ 1192 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ اس علاقے کو 1972 میں وائلڈ لائف گیم سینکچری یعنی جنگلی حیات کی پناہ گاہ قرار دیا گیا، جس کے تحت اس علاقے کی حدود میں کسی قسم کا شکار کرنا، پرندوں یا جانوروں کو پکڑنا اور ان کے قدرتی مسکن میں کسی بھی قسم کا خلل ڈالنا غیر قانونی ہے۔
1974 میں نیشنل پارک کا درجہ دے کر اسے سرکاری طور پر قومی سطح پر تحفظ دیا گیا۔
یہ پاکستان کا پہلا پارک ہے جسے 1975 میں اقوام متحدہ کی مرتب کردہ دنیا کے نیشنل پارکوں کی فہرست میں شمار کیا گیا تھا، جو صوبہ سندھ کا واحد نیشنل پارک ہے۔
محکمہ جنگلی حیات سندھ کے سرکاری ریکارڈ کے مطابق اس وقت کیرتھر نیشنل پارک میں 30 ہزار سندھ آئی بیکس، 14 ہزار اڑیال، دو ہزار چنکارا کے علاوہ کالے ہرن، 500 سے زائد اقسام کے چرند، پرند، ممالیہ، پرندے، اور کئی اقسام کے کیڑے مکوڑے پائے جاتے ہیں۔
کیرتھر نیشنل پارک گیدڑ، جنگلی مور، لیپوریڈ کی نسل کے بلیک نیپڈ خرگوش، بھڑیے، سانپوں کی کئی اقسام، تیتر، سفید پیر والی لومڑی سمیت لومڑیوں کی کئی اقسام، چوہوں کی کئی اقسام، جنگلی بلیوں اور پرندوں میں عقاب، چیل اور مصری گدھوں سمیت کئی اقسام کے جانوروں کا قدرتی مسکن ہے۔
محکمہ سندھ جنگلی حیات کے مطابق کیرتھر نیشنل پارک میں کچھ عرصہ قبل تک تیندوے بھی موجود تھے۔
کیرتھر نیشنل پارک قومی سطح پر تحفظ دی گئی کئی سائٹس کے ایک بڑے کمپلیکس کا حصہ ہے، جس میں عالمی طور پر رام سر کنونشن کے تحت رامسر سائیٹ حب ڈیم، حب ڈیم وائلڈ لائف سینکچوری، محل وائلڈ لائف سینکچوری، سُرجان، سُمباک، ایری اور ہوتھیانو گیم سینچری بھی شامل ہیں۔
سندھ جنگلی حیات کے قدرتی مسکن کا مرکز
سندھ حیاتیاتی تنوع کے لحاظ سے ایک اہم خطہ سمجھا جاتا ہے۔ عالمی معاہدے ’رامسر کنونشن‘ کے تحت حیاتیاتی تنوع کے لحاظ سے اہمیت والی آب گاہوں کو رامسر سائٹ قرار دیا جاتا ہے۔
پاکستان میں کل 19 رامسر سائٹس ہیں، جن میں سے 10 صرف صوبہ سندھ میں ہیں۔
اس کے علاوہ روس، سائبیریا اور دیگر ممالک سے دنیا کے دوسروں خطوں میں جانے والے پرندوں کے راستے ’انڈس فلائے زون‘ پر واقعے ہونے کے باعث ہر سال بڑی تعداد میں مہمان پرندے سندھ کی آب گاہوں پر اترتے ہیں۔
سندھ کے مختلف قدرتی علاقوں میں موجود انواع و اقسام کے چرند، پرند کے قدرتی مسکن موجود ہیں۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔