امریکہ میں سعودی عرب کی سفیر شہزادی ریما بنت بندر نے ٹینس کی سابق امریکی کھلاڑیوں کرش ایورٹ اور مارٹینا ناوراٹیلووا کی جانب سے سعودی عرب میں وومینز ٹینس ایسوسی ایشن کے فائنلز کے انعقاد پر پابندی کے مطالبات کو مسترد کر دیا ہے۔
شہزادی ریما کا یہ بیان کرش ایورٹ اور مارٹینا ناوراتیلووا کی جانب سے 26 جنوری کو واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والے مضمون کے بعد سامنے آیا جس میں انہوں نے مملکت میں خواتین کے میگا ایونٹ کے فائنلز کے انعقاد کی مخالفت کی تھی۔
دونوں سابق کھلاڑیوں نے الزام لگایا تھا کہ سعودی عرب میں صنفی مساوات کا فقدان ہے اس لیے وہاں اس سیزن کے فائنلز کا انعقاد نہیں ہونا چاہے۔
To those who seek to deny our women the same opportunities of others, what I hear clearly is that there is no seat for us at their table. But we welcome you at ours.
— Reema Bandar Al-Saud (@rbalsaud) January 30, 2024
A response to:https://t.co/8Bbvm4LHUG pic.twitter.com/JuIqMTTNht
اس کے ردعمل میں شہزادی ریما نے لکھا: ’کھیلوں کو ذاتی تعصب، اپنے ایجنڈوں کو فروغ دینے یا ٹینس کو اپنانے اور اس کی ترقی میں حصہ ڈالنے کے خواہشمند معاشرے کو سزا دینے کے لیے ایک آلے کے طور پر استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’سعودی عرب میں خواتین کی شاندار ترقی کو تسلیم کرنے میں ناکامی ہمارے شاندار سفر کو بدنام کرنے کے مترادف ہے۔‘
ان کے بقول: ’دنیا بھر کی بہت سی خواتین کی طرح ہم نے ٹینس کی ان لیجنڈز کو رول ماڈل اور امید کی کرن کے طور پر دیکھا کہ باقی خواتین بھی یہ سب حاصل کر سکتی ہیں لیکن ان چیمپئنز نے انہی خواتین سے منہ موڑ لیا ہے جن سے وہ متاثر تھیں اور یہ مایوس کن ہے۔‘
شہزادی ریما نے کہا کہ سعودی عرب میں خواتین کو اب روایتی طور پر مردوں کی اجارہ داری والے شعبوں جیسے کہ فوج، فائر فائٹنگ، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور یہاں تک کہ خلائی تحقیق میں مواقع میسر ہیں۔
انہوں نے ایورٹ اور ناوراتیلووا کی اس دلیل کو مسترد کر دیا کہ سعودی عرب کے معاشرے میں خواتین کو برابری کے حقوق حاصل نہیں ہیں۔
ان کے بقول: ’مجھے صرف یہ کہنے دیں کہ اپنے حقائق کو درست کر لیں۔ مردوں کی 'سرپرستی' جیسی کوئی چیز آج سعودی خواتین کو بیان نہیں کرتی۔ خواتین کو سفر کرنے، کام کرنے یا اپنے گھر کی سربراہ بننے کے لیے کسی سرپرست کی منظوری کی ضرورت نہیں ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’آج سعودی خواتین تین لاکھ سے زیادہ کاروبار اور تقریباً 25 فیصد چھوٹی اور درمیانے درجے کی سٹارٹ اپ کمپنیوں کی مالک ہیں اور یہ اعدادوشمار امریکہ کے برابر ہیں۔ سعودیہ میں خواتین کو اب مساوی تنخواہ ملتی ہے اور یہ ایک ایسا حق ہے جس کا اطلاق پوری دنیا پر ہونا چاہیے۔
ان کے بقول: ’اگرچہ ابھی اس حوالے سے مزید کچھ کرنے کی ضرورت ہے، خواتین کے لیے حالیہ پیش رفت، ملازمتوں میں ان کی شمولیت، اور ان کے لیے پیدا کیے جانے والے سماجی اور ثقافتی مواقع گہرے ہیں اور ان کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شہزادی ریما نے کہا کہ سعودی عرب میں تقریباً ساڑھے تین لاکھ رجسٹرڈ خواتین ایتھلیٹس ہیں جن میں سے 14 ہزار ٹینس کے کھیل میں حصہ لے رہی ہیں جبکہ ہزاروں خواتین کوچ، سرپرست، ریفری اور سپورٹس ڈاکٹرز کے طور پر خدمات انجام دے رہی ہیں۔
شہزادی ریما نے زور دیا کہ سعودی عرب کی خواتین ’خاموش متاثرین‘ کے طور پر پیش کرنا نہ صرف کھیلوں میں ان کی ترقی کو بلکہ ملک میں خواتین کے لیے کی جانے والی وسیع تر پیشرفت کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔
سعودی سفیر نے ان دعووں کو مسترد کر دیا کہ مملکت میں مردوں کی سرپرستی کے قوانین خواتین کی آزادی کو محدود کرتے ہیں اور یہ کہ یہ قوانین اب نافذ العمل نہیں ہیں۔
انہوں نے درست معلومات کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے ان دعوؤں کو بھی مسترد کر دیا کہ سعودی قانون خواتین کو مردوں کی ملکیت سمجھا جاتا ہے۔
یاسمین الدباغ، تہانی القحطانی اور یارہ الحوگبانی جیسی ایتھلیٹس کی کامیابیوں کو اجاگر کرتے ہوئے شہزادی ریما نے سعودی عرب میں خواتین کے حقوق کے بارے میں غلط تاثرات زائل کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
انہوں نے خواتین کی ترقی پر ایک مثبت بحث کا مطالبہ کیا اور تعصب سے بچنے کے لیے جامع مذاکرات پر زور دیا۔