پاکستان کی خارجہ پالیسی گذشتہ ایک برس سے بظاہر بہت فعال رہی لیکن اس کے باوجود کشمیر کے معاملے پر بھارت اپنا پتہ کھیل گیا اور پاکستان مذاکرات کے جواز تلاش کرتا رہ گیا۔ اس اہم معاملے پر اقوام متحدہ سکیورٹی کونسل اور انسانی حقوق کی کمیٹی کے بعد اب نگاہیں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی پر لگی ہیں۔ لیکن اب تک کی سفارتی کوششیں زیادہ کامیاب نہیں مانی جا رہی ہیں۔
سفارتی امور کو سمجھنے والے پاکستان کی سفارت کاری کو مختلف نظر سے دیکھتے ہیں۔ انڈپینڈنٹ اردو نے سفارتی امور کے ماہرین سے رابطہ کیا اور پوچھا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی گذشتہ ایک سال میں کیا کا کردگی دکھا سکی؟
تجزیہ کار قمر چیمہ نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان نے ملک کی خارجہ پالیسی کی سمت دفاعی موڈ میں رکھی۔ ان کے مطابق: ’وزیر اعظم یہ کہتے رہے کہ نریندر مودی انتخابات جیتیں گے تو مذاکرات ہوں گے، کشمیر کا مسئلہ حل ہو گا، لیکن نریندر مودی نے انتخابات جیتنے کے فوراً بعد جموں و کشمیر کی نیم خودمختار حیثیت ختم کر دی۔ یہ بی جے پی کے انتخابی منشور میں شامل تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ پاکستان کے قومی ادارے بھانپ ہی نہیں سکے کہ بھارتی وزیر اعظم کیا کرنے جا رہے ہیں۔
قمر چیمہ نے بتایا: ’بھارت نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ضرورت پڑنے پر ایٹم بم پہلے استعمال نہ کرنے کی پالیسی بھی تبدیل ہو سکتی ہے تو اس کا مطلب تو یہ ہے کہ پاکستان جوابی ردعمل اور دفاعی موڈ میں بھارت کو دیکھتا رہا۔‘
قمر چیمہ کے مطابق پاکستان کی خارجہ پالیسی کو جارحانہ ہونے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا: ’اب وقت آ گیا ہے کہ سفارت کاری کو سرگرم کیا جائے۔ پاکستان کو جان بچانے والی ادویات بھی بھارت سے منگوانی پڑ گئی ہیں، تجارت بند ہونے کے بعد پاکستان کو دوبارہ درخواست کرنی پڑ گئی۔ اگر ادویات تک بھارت سے لینی ہیں تو پھر بھارت سے لڑنا کیسے ہے؟‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سفارتی امور پر رپورٹنگ کرنے والے صحافی شوکت پراچہ نے کہا کہ کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی اس ملک کی تمام قومی پالیسیوں کا مرکب ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں ایک خلا ہے کہ ملک کے اندر اپوزیشن جماعتوں کو خارجہ پالیسی کے اہم امور اور پاکستان کے موقف کا علم ہی نہیں ہوتا کہ وہ کسی بین الاقوامی فورم میں پبلک ڈپلومیسی کر سکیں۔
سابق سفیر عاقل ندیم نے اندپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے معاملے پر پاکستان کی پالیسی درست ہے، اب جو کچھ امن مذاکرات میں ہو رہا ہے وہ امریکہ کا اپنا مسئلہ ہے۔
ان کا کہنا تھا: ’مشرقی سرحد پر پاکستان کو سب سے بڑا خطرہ بھارت سے ہی ہے۔ لیکن بھارت کے معاملے میں پاکستان نے دور اندیشی سے کام نہیں لیا۔ پاکستان کو علم تھا کہ کشمیر کے معاملے پر پاکستان کو بین الاقوامی حمایت مشکل سے ملے گی۔ وزیراعظم عمران خان بذات خود پی فائیو ممالک سے ملاقاتیں کرتے اور کشمیر کے معاملے پر ان کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرتے۔‘
کیا وزیر خارجہ کی ٹیلی فون ڈپلومیسی کامیاب رہی؟
عاقل ندیم نے کہا کہ وزیر خارجہ نے بھی ٹیلی فون کالز کیں لیکن دورے کم کیے ہیں۔ اس معاملے پر زیادہ دورے کرنے اور ممالک کو اعتماد میں لینے کی ضرورت تھی۔
قمر چیمہ نے کہا کہ کشمیر امور کمیٹی کے لیے خارجہ امور کو سمجھنے والا سربراہ چاہیے۔ ان کے مطابق: ’سیاسی طور پر نوازشوں سے سفارت کاری نہیں ہوتی۔ اب تک وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ٹیلی فون ڈپلومیسی کا ہی سہارا لیتے رہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ کشمیر کے معاملے پہ کھل کر پتہ چل رہا ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کیسے کام کر رہی ہے۔
قمر چیمہ کے بقول: ’پاکستان کے پاس اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی ایک بڑا موقع آ رہا ہے جہاں پاکستان کشمیر کا کیس پیش کر سکتا ہے۔ بھارت کا چہرہ دنیا کو دکھا سکتے ہیں۔ پچھلے 20 سالوں سے پاکستان مذاکرات کی بات کرتا رہا اور بھارت کبھی بات چیت کی طرف نہیں آیا ہے۔‘
شوکت پراچہ نے کہا کہ بین الاقوامی برادری نے کشمیر کے معاملے پر کھل کر پاکستان کا ساتھ نہیں دیا اور یہی کہا جا رہا ہے کہ کشمیر پاکستان اور بھارت کا دو طرفہ معاملہ ہے اس لیے آپس میں حل کریں۔ ان کے مطابق بین الاقوامی برادری میں بھارت کے بیانیے کو تقویت دی جا رہی ہے۔
شوکت پراچہ نے کہا کہ وزیر خارجہ نے اپنے ہم منصبوں کو بہت ٹیلی فون کیے ہیں لیکن اس کے باوجود پاکستان کو اقوام متحدہ سلامتی کونسل میں مکمل حمایت حاصل نہ ہو سکی۔
انڈونیشیا میں سابق سفیر عاقل ندیم نے کہا کہ اقوام متحدہ جنرل اسمبلی سے کوئی خاص امید نہیں ہے۔ البتہ وزیراعظم عمران خان کے لیے موقع ہے کہ وہ اقوام عالم کے سربراہان سے لازمی ملاقات کریں اور پاکستانی سفارت کاری کو مضبوط کریں۔ انہوں نے کہا کہ لابنگ کرنے کے لیے وزیر اعظم کے لیے جنرل اسمبلی سے بڑا موقع نہیں ہو سکتا۔
سفارت کاری کے موثر ہونے میں میڈیا کا کردار؟
تجزیہ کار قمر چیمہ نے کہا کہ پاکستان کی سفارتکاری موثر نہ ہونے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں انگریزی چینلز ہی نہیں ہیں جو آپ کا بیانیہ بیرونی دنیا تک پہنچائیں۔ ’
ان کے مطابق: ’اگر ففتھ جنریشن وار فئیر ہے، میڈیا وار فئیر کی حکمت عملی ہے تو انگرزی نیوز ٹی وی چینلز ضروری ہیں تاکہ پاکستان کا بیانیہ بیرونی دنیا دیکھ سکے۔ بیرون ممالک اپنے بیانیے کے پرچار کے لیے پاکستان کو بین الاقوامی میڈیا کا سہارا لینا پڑتا ہے۔‘
اینکر شوکت پراچہ نے کہا کہ پاکستان اس حوالے سے خوش قسمت ہے کہ کشمیر کے معاملے پر پاکستان کی بین الاقوامی میڈیا نے بہت مدد کی۔ ’پاکستان کا بیانیہ اور کشمیر کی صورت حال پر بین الاقوامی میڈیا نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کے بیانیے کو مضبوط کرنے میں مدد دی۔‘
دفاعی اداروں کا خارجہ امور میں کتنا کردار؟
اگست 2018 میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی اب دفتر خارجہ میں ہی بنے گی لیکن گذشتہ ایک سال کے اتار چڑھاؤ نے اس دعوے کو محض دعویٰ ہی رہنے دیا۔
تجزیہ کار قمر چیمہ نے کہا: ’دفاع اور دفتر خارجہ کو مل کر کام کرنا ہوتا ہے۔ پارلیمنٹ اور جی ایچ کیو کو مل کر کام کرنا چاہیے۔‘
انہوں نے کہا کہ خارجہ پالیسی میں فوج کا کردار ضرور ہے۔ لیکن اگر پارلیمنٹ کی کمیٹیاں اپنا کام نہیں کریں گی تو جی ایچ کیو کا خارجہ امور کے معاملات میں کردار بڑھ جاتا ہے۔
سفارتی صحافیوں کا کہنا ہے کہ جب تک سیاسی تقرریوں کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا جائے گا اور کیرئیر ڈپلومیٹ کو ترجیح نہیں دی جائے گی تو پاکستان کو سفارتی محاز پر سبکی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
سینئیر صحافی خالد محمود نے کہا کہ اقوام متحدہ جیسے اہم مشن میں 2013 کی سیاسی تقرری ملیحہ لودھی کو تعینات کیا گیا لیکن دو سال پہلے اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر پر بات کرتے ہوئے انہوں نے فلسطینی بچی کی تصویر دکھا دی۔
خالد محمود کے مطابق جب کیرئیر سفارت کار ہو تو ایسی غلطیوں کا احتمال بہت کم ہوتا ہے کیونکہ وہ بہت محتاط انداز میں کام کرتے ہیں۔