سیاست دانوں کے غیرسیاسی لطیفے

میں یہ لطیفے سنتا ہوں تو ایک بات کا یقین ہو جاتا ہے کہ سیاست دان دنیا بھر میں ایک جیسے ہوتے ہیں، ان کے وعدوں کا اعتبار نہیں کیا جاتا اور نہ ہی ان کے نعروں کا حساب مانگا جاتا ہے۔

22 دسمبر 2023 کی اس تصویر میں خواتین امیدوار کوئٹہ میں ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں آٹھ فروری 2024 کے عام انتخابات کے لیے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرا رہی ہیں (اے ایف پی)
 

پہلے ایک مبینہ لطیفہ سن لیں۔ ایک مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ کسی ملک میں انتخابات ہارنے والی جماعت انتخابی نتائج قبول کرنے سے انکار کر دیتی ہے جس کے نتیجے میں خانہ جنگی کی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے۔

مسلح باغی دارالحکومت پر حملہ کر کے خوب توڑ پھوڑ کرتے ہیں لیکن بالآخر ان پر قابو پا لیا جاتا ہے۔ تاہم جاسوس ادارے اطلاع دیتے ہیں کہ باغی اگلے حملے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں حکومتی رہنما باغیوں سے نمٹنے کے لیے جہاندیدہ سیاست دانوں سے مذاکرات کرتے ہیں۔

انتخابات جیتنے والے سیاست دان کہتے ہیں کہ سبکدوش ہونے والے وزیر اعظم کا مواخذہ کیا جائے جبکہ ہارنے والی پارٹی اب بھی الیکشن ماننے سے انکاری ہے۔

اس سارے شور شرابے میں ایک نامعلوم شخص کو کسی طرح اندرون خانہ ہونے والے ان مذاکرات تک رسائی مل جاتی ہے اور وہ شخص موقع سے فائدہ اٹھا کر مشورہ دیتا ہے کہ ’ہزاروں فوجی دارالحکومت کی حفاظت کے لیے کھلے آسمان تلے ٹھنڈی زمین پر سونے پر مجبور ہیں لہٰذا صدر کو چاہیے کہ فوراً مزید نفری طلب کرے اور ملک میں مارشل لا لگا دے۔‘

یہ مشورہ سن کر سب لوگ ہکا بکا رہ جاتے ہیں۔ صدر اس شخص سے پوچھتا ہے، ’نوجوان، تم کون ہو اور تمہارا پس منظر کیا ہے؟ کیا تم کسی انٹیلی جنس ایجنسی کے افسر ہو یا اس قسم کے انقلابات سے نمٹنے کا تجربہ رکھنے والے سکیورٹی ماہر؟‘

’نہیں جناب۔‘ آدمی جواب دیتا ہے، ’میں تو گلی محلوں میں منجی بسترے بیچتا ہوں۔‘

میں نے اس کو مبینہ لطیفہ اس وجہ سے لکھا ہے کہ ایک تو اس کی ’پنچ لائن‘ میں کوئی خاص ’لافٹر‘ نہیں اور دوسرے یہ کہ جس بات کو لطیفے کے طور پر بیان کیا گیا ہے وہ حقیقت سے اتنی دور بھی نہیں۔ جن لوگوں کو ہم بڑی بڑی میٹنگز میں کروفر کے ساتھ بیٹھے ہوئے دیکھتے ہیں ان میٹنگز میں اسی قسم کی عامیانہ باتیں ہوتی ہیں۔

اصل میں ان میٹینگز میں بیٹھے ہوئے لوگ سوٹ ٹائی لگا کر خود کو بہت مدبر، پڑھا لکھا اور سٹیٹس مین ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ حقیقت میں ان کے دماغ کی سطح منجی بسترے بیچنے والوں جیسی ہی ہوتی ہے۔

آپ سمجھ رہے ہوں گے کہ شاید میں مبالغہ آرائی سے کام لے کر بات کو زیب داستان کے لیے بڑھا رہا ہوں مگر یقین کریں کہ میں خود اس قسم کی میٹنگز میں بیٹھتا ہوں، مجھے اچھی طرح اندازہ ہے کہ ان میں کیسی سطحی بحث ہوتی ہے، کس قسم کے احمقانہ دلائل دیے جاتے ہیں اور کس طرح ملکی مسائل کے ناقابل عمل حل پیش کیے جاتے ہیں۔ اور یہ بات صرف ہمارے ملک تک محدود نہیں، بین الاقوامی سطح پر بھی حال کچھ ایسا ہی ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ وہاں حماقت کی سطح اتنی نہیں گری جتنی اپنے ہاں ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)


بات کچھ سنجیدہ ہو گئی، حالانکہ میں نے عہد کیا تھا کہ آج بالکل غیر سنجیدہ موضوع پر کالم لکھوں گا اسی لیے آغاز انتخابات کے لطیفے سے کیا۔

آج کل انتخابی مہم اپنے عروج پر ہے، سیاست دان عوام سے وعدے کر رہے ہیں جن کے بارے میں ان کا وعدہ ہے کہ وہ یہ وعدے پورے کریں گے۔ ایسے میں ایک اور لطیفہ یاد آ گیا۔ سیاست دانوں کا ایک گروہ کسی دور درازے علاقے میں بس میں سفر کر رہا تھا کہ اچانک بس کی بریک فیل ہو گئی اور وہ بے قابو ہو کر کھائی میں گر گئی۔

اہل علاقہ حادثے کی جگہ پہنچے اور تباہ شدہ بس میں سے لوگوں کو نکال کر پاس کے قبرستان میں دفن کر دیا۔ پولیس اس وقت پہنچی جب سیاست دانوں کی تدفین مکمل ہو چکی تھی۔

تھانیدار نے تفتیش کی غرض سے نمبردار سے پوچھا، ’کیا حادثے میں تمام سیاست دان مر گئے؟‘

بوڑھے نمبردار نے کچھ دیر سوچا اور پھرجواب دیا، ’ہاں ٹھیک ہے کہ ان میں سے کچھ نے کہا تھا کہ وہ ابھی مرے نہیں لیکن آپ تو جانتے ہیں ناں کہ ان سیاست دانوں کی بات پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا!‘

اب میں یہ لطیفے سنتا ہوں تو ایک بات کا یقین ہو جاتا ہے کہ سیاست دان دنیا بھر میں ایک جیسے ہوتے ہیں، ان کے وعدوں کا اعتبار نہیں کیا جاتا اور ان کے نعروں کا حساب بھی نہیں مانگا جاتا۔

تفنن برطرف، مہذب اور ترقی یافتہ ممالک میں سیاست دانوں کو بہرحال کچھ نہ کچھ کام ضرور کرنا پڑتا ہے، وہ پارلیمان میں تیاری کر کے جاتے ہیں اور قائمہ کمیٹیوں میں پیش کی جانے والی رپورٹوں پر سول افسران کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیں۔

ہماری قوم اگلے ہفتے اپنی نئی پارلیمان کا انتخاب کرے گی، پانچ سال میں یہ موقع ایک مرتبہ ملتا ہے، چاہے کچھ بھی ہو یہ موقع گنوانا نہیں چاہیے۔

اور سچ پوچھیں تو ہماری پارلیمان کی کارکردگی بھی کچھ ایسی بری نہیں۔ 18ویں ترمیم کو ہی لے لیں، اسے بجا طور پر آئین کا جھومر کہا جا سکتا ہے۔ اس ترمیم کے خلاف کچھ پروپیگنڈا بھی ہوتا رہتا ہے کہ اس کے بعد صوبوں کو ضرورت سے زیادہ پیسے دیے جاتے ہیں اور وفاق کنگال ہو گیا ہے، حالانکہ یہ بات نہ صرف خلاف آئین ہے بلکہ حقائق کے بھی منافی ہے، مگر جیسا کہ میں نے کہا کہ یہ سنجیدہ بات ہے اور میں آج غیر سنجیدہ موڈ میں ہوں۔

ہماری قوم اگلے ہفتے اپنی نئی پارلیمان کا انتخاب کرے گی، پانچ سال میں یہ موقع ایک مرتبہ ملتا ہے، چاہے کچھ بھی ہو یہ موقع گنوانا نہیں چاہیے اور ان لوگوں کی باتوں میں آئے بغیر اپنا ووٹ ڈالنا چاہیے جو اس جمہوری نظام کے خلاف ہر وقت زہر اگل کر اسے ڈس کریڈٹ اور بدنام کرتے رہتے ہیں۔

یہ وہ لوگ ہیں جن کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ، خاکم بدہن، یہ ملک رہتا ہے یا نہیں، سو یہ ہر وقت سوائے کیڑے نکالنے کے اور کوئی کام نہیں کرتے۔

نو منتخب حکومت کو چاہیے کہ آٹھویں ترمیم کے تحت وفاق سے تمام صوبائی نوعیت کے محکموں کو ختم کر کے صرف ایک نیا محکمہ قائم کرے جس کا کام کیڑے نکالنا ہو اوراس محکمے میں ان دانشوروں کو بطور ’چیف کیڑا آفیسر‘ تعینات کر دے۔

یقین کریں کہ کم از کم اس سے ملک میں بے چینی اور غیر یقینی صورت حال کا خاتمہ ضرور ہو جائے گا۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر