سیاست پر دوست قربان نہ کریں

آخر جن لوگوں کی خاطر آپ اپنے عزیز دوستوں سے ناراض ہوتے ہیں، ان کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ نے ان کے لیے کتنی پرانی دوستیاں قربان کر دیں۔

16 جولائی 2018 کی اس تصویر میں راولپنڈی میں عام انتخابات سے قبل مختلف سیاسی جماعتوں کی مہم کے دوران لگائے گئے بینرز (اے ایف پی)

ایک سیاست دان اپنی انتخابی مہم چلا رہا تھا تو کسی صحافی نے اس سے شراب سے متعلق پالیسی کے بارے میں پوچھا، سیاست دان نے جواب دیا کہ ’اگر آپ کی مراد اس شیطانی مشروب سے ہے جو جسم میں زہر بھر دیتا ہے، دماغ کو برباد کرتا ہے، خاندان کو تباہ کرتا ہے اور جرائم کا سبب بنتا ہے، تو میں اس کے سخت خلاف ہوں!

’لیکن اگر آپ کا مطلب یہ ہے کہ وہ مشروب شادی کے موقعے پر جشن منانے کے لیے پیا جاتا ہے، ویک اینڈ پر دوستوں کی محفل میں اس سے لطف اندوز ہوا جاتا ہے اور اس کی فروخت سے حاصل ہونے والا ٹیکس ضرورت مند یتیموں پر خرچ کیا جاتا ہے، تو میں اس مشروب کے حق میں ہوں! اور میں اپنی رائے نہیں بدلوں گا، چاہے آپ کچھ بھی کہیں۔‘

دنیا بھر میں سیاست دانوں کے لطیفے مشہور ہیں اور یہ اسی قسم کا ایک لطیفہ ہے۔ اس کی ضرورت یوں پیش آئی کہ ہمارے ملک میں بھی بالآخر انتخابی ماحول بن رہا ہے، موسم تو سردی کا ہے مگر سیاست گرم ہے، ان حالات میں اچھے خاصے دوست بھی بعض اوقات سیاسی بحث کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں، لہذا دوستوں کی محفل میں ضروری ہے کہ بحث کو ہلکے پھلکے انداز میں لیا جائے، ایک دوسرے کو نشتر سے گدگدی تو کی جائے مگر خیال رہے کہ کہیں آبگینوں کو ٹھیس نہ لگ جائے۔

آخر جن لوگوں کی خاطر آپ اپنے عزیز دوستوں سے ناراض ہوتے ہیں، ان کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ نے ان کے لیے کتنی پرانی دوستیاں قربان کر دیں۔

اب تو خیر انتخابات یقینی ہیں مگر عموماً جب بھی پاکستان میں انتخابات کا موسم قریب آتا ہے تو ایک سوال سے مجھے بے حد چِڑ ہوتی ہے۔ ’کیا الیکشن ہوں گے؟‘

گذشتہ 22 برسوں میں ملک میں چار انتخابات ہوئے ہیں یعنی ہر پانچ سال بعد انتخاب، مگر بے اعتباری ایسی ہے کہ ہر مرتبہ شبہ ہوتا ہے کہ شاید اب کی بار نہیں ہوں گے، لیکن اِس دفعہ تو حد ہوگئی۔ انتخابات واقعی مقررہ وقت پر نہیں ہوئے، لیکن کوئی بات نہیں، چند ماہ کی تاخیر سے ہی سہی، ہو تو رہے ہیں۔

نہ بھی ہوتے تو ہم کیا کر سکتے تھے، زیادہ سے زیادہ عوام کے حقِ رائے دہی چھن جانے پر ماتمی مضمون لکھ دینا تھا، بس۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں، لیکن یہ تو میں کہہ رہا ہوں، عوام اس حق کے بارے میں کافی حساس واقع ہوئے ہیں۔

انہیں جب یہ حق نہیں ملتا تو آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں مگر جب ملتا ہے تو اِس قدر لاپروائی سے استعمال کرتے ہیں کہ پھر آئندہ پانچ برس تک سر پر ہاتھ رکھ کر رونا پڑتا ہے۔

بعض اوقات تو ایسے ایسے ’نابغہ روزگار‘ قسم کے لوگ منتخب ہو جاتے ہیں کہ بندہ حیران رہ جاتا ہے کہ اگر یہ لوگ اپنے خالی دماغ کے باوجود اسمبلی میں پہنچ سکتے ہیں تو مجھے تو امریکہ کا صدر ہونا چاہیے۔

خالی الدماغ سے بھی ایک لطیفہ یاد آگیا۔ ایک سیاست دان اپنا سالانہ میڈیکل چیک اپ کروانے گیا تو اس کے ڈاکٹر نے تمام ٹیسٹ کرنے پر اسے یہ اطلاع دی: ’اچھی خبر یہ ہے کہ آپ کے دماغ کے دو حصے ہیں اور بری خبر یہ ہے کہ دماغ  کے بائیں حصے میں کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے جبکہ دائیں حصے میں کچھ بھی باقی نہیں ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ میں سیاست دانوں کا تمسخر اڑا کر غیر محسوس انداز میں جمہوریت کے خلاف پروپیگنڈا کر رہا ہوں تو آپ غلطی پر ہیں، اس ملک میں ایسے نام نہاد پڑھے لکھوں کی کمی نہیں، جو جمہوریت کے خلاف باقاعدہ مہم چلاتے ہیں اور اس ضمن میں ان کے دلائل وہ ہیں جو ہزار سال پہلے ہی پٹ چکے ہیں مگر انہیں ان دلائل کا علم 2024 میں ہوا ہے۔

ایسے ہی ایک صاحب کا میں انٹرویو دیکھ رہا تھا جس میں موصوف کمال یقین کے ساتھ فرما رہے تھے کہ جمہوریت اس ملک کے لیے ٹھیک نہیں ہے، یہاں کے عوام جاہل، نا سمجھ، کم علم اور کند ذہن ہیں، لہذا جب تک ان میں شعور نہیں آجاتا، تب تک جمہوریت ایسے ہی تباہی مچاتی رہے گی۔

ایسی دانشمندی بگھارنے پر ان صاحب کو 10 میں سے 10 نمبر ملنے چاہییں کیونکہ ہمارے ملک میں اس قسم کی خرافات کو بیچنا بھی ایک ہنر ہے اور موصوف یہ کام خاصی چابک دستی سے انجام دے رہے ہیں۔

پروگرام کا میزبان، جو کہ کافی سمجھدار اور ذہین نوجوان تھا، اس قسم کے دلائل سن کر تڑپ اٹھا اور اس نے مہمان کو سمجھانے کی کوشش کی کہ جناب والا یہ جو باتیں آپ فرما رہے ہیں، عرصہ دراز سے دفن ہوچکیں، اب تو ڈکٹیٹر بھی یہ سودا نہیں بیچتے مگر مجال ہے کہ موصوف کو کچھ سمجھ آئی ہو۔

اصل میں ایسے لوگ خود کو کسی اوتار سے کم نہیں سمجھتے۔

اِن کا خیال ہے کہ جس طرح کی ڈگریاں ان کے پاس ہیں جب تک ویسی ڈگریاں کسی شخص کے پاس نہیں ہوں گی، تب تک اسے ووٹ ڈالنے کا حق نہیں ملنا چاہیے۔

یہ ایسی احمقانہ بات ہے کہ اس پر صرف قہقہہ ہی لگایا جا سکتا ہے، مدلل جواب ان کے سر کے اوپر سے گزر جائے گا۔

گفتگو خواہ مخواہ سنجیدہ ہوگئی۔ چلیے ماحول کو ٹھنڈا کرتے ہیں۔ ایک ڈاکو کسی متمول شخص کی کوٹھی میں لوٹ مار کی غرض سے داخل ہوا اور صاحب خانہ کو پستول کے زور پر یرغمال بنا کر چیخا، ’اپنی ساری رقم مجھے دے دو!‘ وہ آدمی پرسکون لہجے میں بولا: ’کیا تم نہیں جانتے کہ میں کون ہوں؟ میں پارلیمنٹ کا رکن ہوں!‘ ڈاکو نے جواب دیا، ’تو پھر اس صورت میں، میری رقم مجھے واپس کرو!‘

سیاست دانوں کے بارے میں ہماری رائے چونکہ اسی قسم کی ہے، اس لیے ملک میں جمہوریت کے خلاف پروپیگنڈا کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔

حالانکہ اس ملک میں جب جب سویلین حکمران آئے، لولے لنگڑے ہی سہی، ملک کے رقبے میں اضافہ ہوا اور زمینی اور بحری حدود پھیلیں اور جب جب آمریت رہی ملک کا رقبہ سکڑ کر کم ہوا اور ہمارے علاقے دشمن کے قبضے میں گئے۔

میرا گمان ہے کہ اس معاملے سے نوجوان نسل کو آگاہی نہیں ہوگی، سو آج کا مضمون اس نوٹ پر ختم کرتے ہیں کہ جو نوجوان اس بات کا پتہ چلائے گا کہ کب کب پاکستان کی حدود میں کمی بیشی ہوئی، اس نوجوان کو اپنی نئی کتاب دستخطوں کے ساتھ پیش کروں گا۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر