’تکبر‘ اپنے نام کی طرح غرور کی کہانی ہے جو انسان کو بیمار رکھتی ہے۔
سادہ سی کہانی ہے۔ سیدھے سادے طریقے سے پیش کی گئی ہے۔ ایک رشتے کے ناناآغا جی ہیں اور ان کی کوئی رشتے کی بیٹی ہے جو بیمار تھی اور وفات پاتے ہوئے اس نے اپنے جوان بچوں مقدس اور معاذ کو کہا کہ اگر اسے کچھ ہو جائے تووہ اپنے نانا کے گھر چلیں جائیں۔
مکان کرائے کا ہے اور مالک مکان کی نیت بھی ٹھیک نہیں ہے۔ وہ مقدس پہ بری نگاہ رکھتا ہے۔ غربت یونہی گھر کی اداس دیوار پہ شام بنی ہوئی ہے دونوں بہن بھائی کی پڑھائی ابھی چل رہی ہے۔
یوں اماں کی وفات کے بعد دونوں بہن بھائی ریل سے نانا ابا کے ہاں پہنچ جاتے ہیں۔
نانا کے دو بیٹوں کے گھرانے پہلے سے اس بڑے سے گھر میں آباد ہیں۔ ان کے اپنے پوتے پوتیاں ہیں۔ بہوئیں ہیں ایسے میں دو جوان بچوں کا گھر میں اچانک آکر مقیم ہو جانا، مسلط ہو جانے کے برابر ہی لگتا ہے۔
نانا ابا بہت فراغ دلی سے انہیں گھر میں جگہ دے دیتے ہیں بلکہ زندگی میں بھی جگہ دے دیتے ہیں لیکن باقی گھرانے کے لیے دل فراغ کرنا مشکل ہو رہا ہے۔
بچے بچوں کے مقابل آ گئے ہیں کیونکہ دونوں ہی ہم عمر اور ہم عصر ہیں۔
نانا ابا چاہتے ہیں مقدس کی پڑھائی کے ساتھ ساتھ اس کی شادی بھی اچھی جگہ کر دی جائے انہوں نے سب ذمہ داریاں اپنے سر لے لی ہیں۔ وہ اپنے دفتر میں ایک لڑکے عباس کی ذہانت و قابلیت سے متاثر ہیں اور کسی طور اسے رشتہ جوڑنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں مگر عین شادی کے موقع پہ پارلر سے گھر آتے دلہن اغوا ہو جاتی ہے اور چور اس کا زیور لے کر اسے گھر کی دہلیز پہ پھینک جاتے ہیں۔
عارض ایک بگڑا ہوا لڑکا ہے اپنے ماحول میں فٹ ہے ایسے میں مقدس سے دوستی کا مطالبہ کرنا بھی کوئی بڑی بات نہیں تھی مگر مقدس کی پرورش کے اعتبار سے مرد و عورت دوست نہیں ہو سکتے تھے۔
اتنی سی بات پہلے انا بنتی ہے، انا سے غرور پھر غرور سےانتقام تک آ جاتی ہے۔
عارض کو اس کی کزن ماہرہ پسند کرتی ہے مگر وہ تو انا کی آگ میں جلنے لگتا ہے کہ مقدس نے اس کے منہ پہ تھپڑ مارا اور اسے دوستی سے انکار بھی کر دیا۔ انکار تو اس کی لغت کا لفظ ہی نہیں تھا، تھپڑ کا واقعہ بھی دونوں کے درمیان ہی ہے۔
ایمن عارض کی بہن ہے اورمقدس کی دوست بھی بن جاتی ہے۔ مقدس دوستی کو رشتے داری میں بدلنے کے خواب دیکھنے لگتی ہے بلکہ اس پہ عمل کرتے ہوئے ایمن سے پوچھ بھی لیتی ہے کہ وہ اس کی بھابھی بننا پسند کرے گی، یہیں سے ایمن اور معاذ میں انس والی دلکشی پیدا ہو جاتی ہے۔
جو کچھ ہو رہا ہے گھر کی چار دیواری میں ہو رہا ہے۔
کہانیاں سب پرانی ہی ہوتی ہیں ان کو تکنیک اور دور سے جدید بنایا جاتا ہے، حسن اتفاق کہیئے کہ یہاں سب کچھ ہی پرانا ہے۔ ابھی تک درجہ اول کی گاڑی سے لڑکی آسانی سے اغوا ہو بھی جاتی ہے اور اتنی ہی آسانی سے گھر بھی پہنچ جاتی ہے کہ کوئی ہنگامہ بھی نہیں ہوتا۔ اتنے بڑے گھر اور علاقے میں کوئی سی سی ٹی وی کیمرے بھی نہیں لگے ہوئے۔
جوان اولاد کو آج بھی ماں مرتے ہوئے کسی رشتے کے نانا کے گھر جانے کا درس دے رہی ہے۔ کالج جانے والی اولاد کو تو محنت مزدوری کرنے کے قابل ہونا چاہئے گویا ایک نکمی اولاد کی کہانی ہے بلکہ سب نوجوان کردار نالائق اور زندگی کی اصل رمک سے دور ہیں۔
سب کو پڑھنے کا بچپن سے شوق ہے مگر پڑھتے شاید نہیں ہیں یا پڑھنا کوئی مجبوری دکھائی گئی ہے جس کے بعد اچھی نوکری مل جائے گی۔ سب کو شادی کا بھی شوق ہے۔ مقدس بطور بہن دلچسپ کردار ہے جو اپنے بھائی کے لیے اس گھر میں رشتہ بنانا چاہ رہی ہے جہاں دونوں کا جینا حرام ہو گیا ہے۔
شاید یہی بقا کی جنگ ہے۔
نانا مکمل فرشتہ صفت ہیں مگر انہیں اپنی غریب نواسی کے حالات بہتر کرنے کا خیال شاید کبھی نہیں آیا۔ وہ معاذ کو وہ اپنے دفتر میں جاب بھی دے سکتے تھے مگر انہوں نے اسے بھی گھر تک محدود کر رکھا ہے۔ عارض البتہ اپنی افسری کا رعب جھاڑنے دفتر جاتا ہے۔
مقدس کو بھی ایک فرشتہ صفت کردار دکھایا گیا ہے۔ مالک مکان کی نیت ٹھیک نہیں ہے؟ کس مالک مکان کی ٹھیک ہوتی ہے؟ لہٰذا اضافت کو جواز بنایا گیا ہے۔
دولہا میاں عابس کو اغوا ہوئی دلہن سے بھی پیار ہو گیا ہے۔ وہ اس کے حسن پہ مرمٹے ہیں۔ سوچ مثبت ہونی چاہیے لیکن غیر حقیقی نہیں ہونی چاہیے، یہاں مثالی تخیل کی پرواز زیادہ ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈرامے کی فضا اداس اداس ہے۔ ایسے ڈرامے خواب کی دنیا میں لے جاتے ہیں جو انسان کو عملی زندگی سے کوسوں دور کر کے دکھی رکھتے ہیں۔ ڈراما میں سب کچھ ہے بس ڈراما نہیں ہے جیسے گھر میں سب کچھ ہوتا ہے افراد بھی ہوتے ہیں، گھرانہ نہیں ہوتا۔
مادیت کی زمین پہ کہانی کی کمزور بنت ہوئی ہے مادیت میں جو آگ ہوتی ہے وہ جملوں میں نہیں بھڑک ہے۔ بڑے جذبوں کے لیے طاقتور الفاظ استعمال کرنے پڑتے ہیں یہاں لفظوں کا وزن کم ہے۔
کاسٹ نے بھی اس وزن کو نہیں بڑھایا ورنہ بعض اوقات کاسٹ سب کمزریوں پہ اداکاری سے پردہ ڈال دیتی ہے۔ ہیرو تو بالکل اپنی جگہ فٹ نہیں ہے مصنوعی سا لگ رہا ہے۔
نانا، دادا پوتے پوتی ، نواسے سب کے کردار ہیں۔ والدین خاموش نسل میں سے معلوم ہو رہے ہیں۔
ڈراما پسند کیا جا رہا ہے۔ چپ کسے پسند نہیں ہوتی۔
تکبر کی کہانی ہے جس کا انجام راکھ ہی ہوتا ہے یہاں بھی سب کچھ زوال کی طرف جا رہا ہے۔ زوال سے شاید بہار کی کونپلیں پھر بیدار ہو جائیں۔
مصنفہ سیما مناف ہیں۔ ہدایات کاشف سلیم کی ہیں۔
ہم ٹی وی سے ڈراما نشر ہو رہا ہے جو ان دنوں اپنی 19ویں سالگرہ منا رہا ہے۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔