برطانوی ہسپتال کی لائبریری میں سموسے کھانے کی پابندی ختم

اس نوٹس میں ’سموسے، پکوڑے اور بھری ہوئی چپاتیوں‘ کا خصوصی ذکر تھا۔

یارک اینڈ سکاربورو ٹیچنگ ہسپتال (ایکس)

نیشنل ہیلتھ سروس (این ایچ ایس) کے ایک ایچ آر سربراہ نے ایک نوٹس پر معافی مانگ لی ہے جس میں لائبریری کے اندر ’بہت بدبودار‘ انڈین کھانے لانے سے منع کیا گیا تھا۔

اس تحریر کا پرنٹ یارک اینڈ سکاربورو ٹیچنگ ہسپتال این ایچ ایس فاؤنڈیشن ٹرسٹ کی لائبریری میں کمپیوٹرز کے سامنے لگایا گیا تھا جس کو فورا ہٹا دیا گیا ہے۔

اس میں لکھا تھا: ’برائے مہربانی لائبریری کے اندر کوئی کھانا نہ لائیں۔ خاص طور پر سموسے، پکوڑے یا بھری ہوئی چپاتیاں نہیں، کیوں کہ یہ بہت بدبودار ہوتے ہیں۔‘

پورٹس ماؤتھ ہسپتال کے ذیابیطس کنسلٹنٹ ڈاکٹر پارتھا کار نے دی انڈپینڈنٹ  کو بتایا کہ اس تحریر سے این ایچ ایس میں مساوات کے لیے مہینوں سے جاری کام ختم ہوگیا ہے جہاں پیشہ ورانہ طور پر قابل کلینیکل سٹاف میں سے تقریباً 16 فیصد ایشیائی ہیں۔

انہوں نے کہا: ’آپ کسی احمق کو اس طرح کی تحریر چسپاں کرنے سے نہیں روک سکتے۔ یہ احمقانہ ہے اور آپ کو اس سے کچھ حاصل نہیں ہوتا- آپ کو صرف لوگوں کی ناراضگی ملتی ہے۔

’ٹرسٹ نے مجھے جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ ناقابل قبول ہے اور اسے ہٹا دیا گیا ہے۔ لہذا میں مجھے لگتا ہے یہ کوئی حادثہ نہیں تھا اور ٹرسٹ کے کسی فرد نے اسے لگایا تھا۔

’مجھے لگتا ہے کہ لائبریری میں کھانا نہ لانے کا تصور بالکل بجا ہے۔ لیکن جب آپ یہ کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ یہ نہیں وہ، تو یہ ایک مسئلہ بن جاتا ہے۔

’نمک اور سرکہ کے ساتھ مچھلی اور چپس سے بھی بلو شنیل کی خوشبو تو نہیں آتی۔ صرف اتنا کہہ دیں لائبریری میں کھانے پینے کی چیزیں مت لائیں۔‘

ایچ آر کے سربراہ پولی میک میکن نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر معافی نامہ پوسٹ کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ تحریر ہٹا دی گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا: ’نشاندہی کا شکریہ۔ اس بات سے اتفاق ہے کہ یہ قطعی طور پر ناقابل قبول ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’گذشتہ روز یارک اور سکاربورو ہسپتال این ایچ ایس لائبریری کی ٹیم کو جیسی ہی پتہ چلا انہوں نے اسے ہٹا دیا۔

’یہ واقعی مایوس کن اور یارک اور سکاربورو ٹیچنگ ہسپتالوں کے طرز عمل سے بالکل مطابقت نہیں رکھتا۔‘

لیکن ڈاکٹر کار نے مزید کہا کہ ’یہ کئی طرح سے غیر پیشہ ورانہ ہے۔ اگر یہ مذاق تھا تو یہ واقعی ایک برا مذاق ہے۔‘

’کیا یہ سراسر نسل پرستانہ ہے؟ ہاں يہ ہے. لیکن ہم نہیں جانتے کہ یہ جان بوجھ کر کیا گیا ہے یا وہ کوئی ایسا مذاق کرنے کی کوشش کر رہے تھے جو مکمل طور پر ناکام ہو گیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ایک تحریر کے ساتھ آپ مساوات کے لیے 18 ماہ سے جاری کام ختم کر سکتے ہیں، جو میں جانتا ہوں کہ این ایچ ایس میں ایک مشکل اور جذباتی موضوع پر پردے کے پیچھے جاری ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اگر ٹرسٹ کی جانب سے یہ بتایا جائے وہ اس پر غور کر رہے ہیں تو جان کر اچھا لگے گا۔ اس میں سیکھنے کے لیے دوسرے ٹرسٹوں کے لیے بھی سبق ہے۔

’لوگ آن لائن بہت غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔ وہ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ وہ کون ہیں اور ان کی برطرفی چاہتے ہیں لیکن مجھے لگتا ہے کہ یہ تھوڑا سا احمقانہ بھی ہے۔

’اگر کسی نے ایسا کیا ہے تو آپ کو ان کے ساتھ بیٹھ کر بات کرنی چاہیے اور سمجھائیں کہ یہ 1947 نہیں بلکہ 2024 ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’ویسے بھی یہ بالکل غلط ہے۔ ہر ایک فوڈ سروے کے مطابق یہ ایک ایسا انڈین کھانا ہے جس کا شمار ان کھانوں میں ہوتا ہے جو انگریز لوگوں سب سے زیادہ کھاتے ہیں۔‘

بہت سے لوگوں نے وائرل پوسٹ پر ردعمل دیتے ہوئے خاص طور پر انڈین  کھانے کا ذکر کرنے کے باعث تنقید کی۔

کنسلٹنٹ یورولوجسٹ اور سینٹر فار ریس ایکویلیٹی ان میڈیسن کے وائس چیئر پروفیسر نتن شروتری نے ایکس پر لکھا: ’زیادہ تر لوگ اچھے ہوتے ہیں، کچھ شرارتی ہوتے ہیں اور بہت کم واقعی برے ہوتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ جس نے بھی یہ لگایا ہے اسے بلایا جائے گا۔ یہ مکمل طور پر غیر ضروری تھا۔‘

این ایچ ایس کے ماہر نفسیات راجہ احمد نے مذاق کرتے ہوئے کہا: ’یہ میری ریٹائرمنٹ کا منصوبہ ہے۔ برطانیہ کے ایک بڑے یونیورسٹی ہسپتال کے سامنے پکوڑے اور سموسے کا سٹال کھولنا۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر این ایچ ایس کی ایک مینیجر نے کہا کہ ان کا خیال ہے کہ اس بات کی تحقیقات کی جائیں گی کہ یہ  کس نے لگایا ہے۔

انہوں نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’جیسے ہی ہمیں پوسٹر کے بارے میں پتہ چلا، اسے ہٹا دیا گیا اور ہم اس سے پیدا ہونے والی کسی بھی پریشانی کے لیے معذرت خواہ ہیں۔
’یہ ٹرسٹ کے خیالات اور طرز عمل کے مطابق نہیں ہے۔‘

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی یورپ