پاکستان کے نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ لاپتہ بلوچ طلبہ کی عدم بازیابی پر آج اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہوں گے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس معاملے پر نگران وزیراعظم سمیت وزیر داخلہ، وزیر انسانی حقوق اور وزیر دفاع کو متعلقہ وزارتوں کے سیکریٹریز سمیت آج (پیر کو) ذاتی حیثیت میں طلب کیا ہے۔
گذشتہ سماعت کے دوران عدالت نے کہا تھا کہ ’وہ پیش ہو کر بتائیں کہ اعلیٰ ترین عہدوں پر بیٹھ کر بلوچ طلبہ کو بازیاب نہ کرانے پر ان کے خلاف ایکشن کیوں نہ لیا جائے؟ وزیراعظم، دونوں وزرا اور دونوں سیکرٹریز 19 فروری کو عدالت میں پیش ہوں۔‘
جسٹس محسن اختر کیانی نے لاپتہ بلوچ طلبہ کی بازیابی کیس میں 13 فروری کو گذشتہ سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’لاپتہ افراد اگر کسی دہشت گردی کی کارروائی یا کسی اور جرم میں ملوث ہوں تو انہیں متعلقہ عدالت میں پیش کیا جائے۔ اُن لوگوں کے خلاف مقدمات درج کر کے متعلقہ عدالت میں قانون کے مطابق فیصلے ہونے دیں۔‘
حکم نامے کے مطابق: ’اٹارنی جنرل کی گذشتہ سماعت پر یقین دہانی کے باوجود بلوچ طلبہ کو بازیاب نہیں کرایا گیا۔ ایسا لگ رہا ہے کہ وفاقی حکومت قانون کی بالادستی میں دلچسپی نہیں رکھتی۔‘
’وزیراعظم، وزارت داخلہ و وزارت دفاع کے وزرا اور سیکریٹریز نے عدالتی حکم پر عمل درآمد نہیں کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’عدالت کے پاس انہیں وضاحت کے لیے طلب کرنے کے سوا کوئی آپشن نہیں۔ یہ پہلو وزیراعظم، وزیر داخلہ و دفاع اور دونوں سیکرٹریز کو مس کنڈکٹ کا مرتکب بناتا ہے۔
’یہ عہدے دار معاشرے کے خلاف جرم میں شریکِ کار ہیں جہاں شہریوں کو زندگی اور آزادی کے حق سے محروم کیا جا رہا ہے۔
’ریاستی اداروں کے پاس اپنے کنڈکٹ کی کوئی وضاحت نہیں بلکہ وہ اس معاملے پر مکمل خاموش ہیں۔‘
عدالت نے مزید کہا کہ ’واضح ہے کہ اس معاملے پر دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ ایک یہ کہ ریاستی ادارے یا تو اغوا اور جبری گمشدگیوں کے کرمنل ایکٹ کے ذمہ دار ہیں۔
’دوسری صورت میں ریاستی ادارے مکمل طور پر ناکام ہیں کہ وہ مبینہ گمشدہ افراد کو بازیاب نہیں کروا سکتے۔‘
عدالت نے لکھا کہ وزارت داخلہ و دفاع کے حکام سربمہر لفافے میں بھی اس متعلق کچھ پیش نہ کر سکے۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔