لاپتہ افراد کے معاملے کو سیاسی نہ بنایا جائے: چیف جسٹس 

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ ’سیاسی مقاصد کے لیے عدالت کو استعمال نہیں ہونے دیں گے، لاپتہ افراد کا کیس سنجیدہ نوعیت کا ہے۔‘

30 اگست 2016 کی اس تصویر میں اسلام آباد میں انسانی حقوق کے کارکن  لاپتہ افراد کے معاملے پر احتجاج کے دوران پلے کارڈز اٹھائے ہوئے ہیں (عامر قریشی/اے ایف پی)

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے منگل کو لاپتہ افراد و جبری گمشدگیوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ اس معاملے کو سیاسی نہ بنایا جائے۔ 

تین رکنی بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی شامل تھے۔

سماعت کے آغاز پر فریقین کے وکلا نے دلائل دیے۔

لاپتہ افراد کے درخواست گزار خوشدل خان ملک نے روسٹرم پر آ کر کہا کہ ’عدالت حکومت کو جبری گمشدہ افراد سے متعلق قانون سازی کا حکم دے۔‘ 

جسٹس محمد علی مظہر نے اس موقعے پر کہا کہ ’جبری گمشدگیوں سے متعلق کمیشن بنا تو ہوا ہے۔‘ درخواست گزار نے عدالت کو جواب دیا کہ ’جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی سربراہی میں لاپتہ افراد کمیشن بنایا گیا لیکن اس نے اب تک کچھ نہیں کیا، عدالت حکومت کو نوٹس کر کے پوچھے کہ 50 سال سےلاپتہ افراد کے بارے قانون سازی کیوں نہیں کی؟‘ 

اس پر چیف جسٹس  نے کہا کہ ’عدالت کیسے پارلیمنٹ کو حکم دے سکتی ہے کہ فلاں قانون سازی کرو؟ آئین کی کون سی شق عدالت کو اجازت دیتی ہے کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی کا حکم دے؟‘ 

اعتزاز احسن کے وکیل شعیب شاہین نے عدالت کے روبرو کہا کہ ’ایڈووکیٹ لطیف کھوسہ کے بیٹے گرفتار ہیں تو مجھے وکالت نامہ دیا گیا ہے، ہماری درخواست پر اعتراضات عائد کیے گئے، لاپتہ افراد کمیشن اپنا کام نہیں کر سکا اور نہ کر سکتا ہے، کمیشن کی اپنی رپورٹ کے مطابق ابھی تک 2200 لوگ لاپتہ ہیں۔‘ 

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ ’اعتراضات کو خارج کر کے درخواستیں سن رہے ہیں کیونکہ یہ عوامی مفاد کا معاملہ ہے، میری غیر موجودگی میں کچھ ہوا اور میں نے واپس آتے ہی یہ درخواستیں سماعت کے لیے مقرر کی ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سماعت کے دوران شعیب شاہین نے سیاست دانوں جن میں شیخ رشید اور صداقت عباسی بھی شامل ہیں، کی گمشدگیوں کا معاملہ اٹھا دیا۔ جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’کیا یہ سب لوگ خود ہمارے سامنے درخواست گزار بنے ہیں؟ کیا یہ سب وہ لوگ ہیں جو خود وسائل نہیں رکھتے کہ عدالت آ سکیں؟ آپ اس معاملے کو سیاسی بنانا چاہتے ہیں تو یہ فورم نہیں ہے، جو شخص دھرنا کیس میں نظرثانی لا سکتا ہے کیا اپنا کیس نہیں لگا سکتا، کل شیخ رشید کہہ دیں کہ انہیں کوئی مسئلہ نہیں، شعیب شاہین کون ہیں میرا نام لینے والا؟ کیا آپ شیخ رشید کو معصوم لوگوں کی کیٹگری میں رکھیں گے؟‘ 

چیف جسٹس نے شعیب شاہین سے مزید استفسار کیا کہ ’فرخ حبیب، عثمان ڈار، صداقت عباسی یہ لوگ کون ہیں؟ کیا آپ اس بات پر رنجیدہ ہیں کہ یہ پی ٹی آئی چھوڑ گئے؟ کیا ہم انہیں یہ کہیں کہ یہ واپس پی ٹی آئی میں آ جائیں؟ یا تو کسی کو اعتزاز احسن کے سامنے اٹھایا گیا ہو تو وہ بات کرے۔‘ 

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ’کوئی خود آکر کہے کہ مجھے اغوا کیا گیا تھا تو ہم سنیں، آپ ان کی جگہ کیسے بات کرسکتے ہیں؟‘ 

وکیل شعیب شاہین نے جواباً کہا کہ ’پورا پاکستان گواہ ہے۔‘ اس پر چیف جسٹس نے سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ ایسے ڈائیلاگ نہ بولیں، آپ نے صرف ایک پارٹی کے لوگوں کا ذکر کیا۔ یہ سب پارٹی چھوڑ گئے اس کا ہمارے پاس کوئی حل نہیں، ہم اس معاملے کو بہت سیریس لینا چاہتے ہیں۔‘ 

جسٹس مسرت ہلالی نے اس موقعے پر ریمارکس دیے کہ ’تمام لاپتہ افراد نے کیا واپس آ کر بتایا کہ وہ اغوا ہوئے تھے؟‘ 

دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ’سیاسی مقاصد کے لیے عدالت کو استعمال نہیں ہونے دیں گے، لاپتہ افراد کا کیس سنجیدہ نوعیت کا ہے، عدالت کا مذاق بنانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ اس معاملے کو سیاسی نہ بنائیں۔‘  

انہوں نے کہا: ’انگریزی کا محاورہ ہے کہ اگر آپ حرارت برداشت نہیں کر سکتے تو کچن میں بھی نہیں جا سکتے، مسئلہ یہ ہے کہ جب عہدے فائز پر ہوتے ہیں تو ذمہ داری کوئی نہیں اٹھاتا۔‘ 

چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ یہ معاملہ اسی صورت میں حل ہو سکتا ہے جب سب ذمہ داری قبول کریں۔ ’پاکستان کو اندرونی طور پر مضبوط کرنا ہے، اب اس مسئلے کا حل نکالنا ہے۔‘ 

ابتدائی دلائل کے بعد عدالت نے سماعت بدھ (تین جنوری) تک ملتوی کرتے ہوئے اٹارنی جنرل سے جواب طلب کر لیا۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان