مصنوعی ذہانت کے شعبے کو خواتین کی ضرورت ہے

ایک مسئلہ جسے برطانوی حکومت نے تسلیم نہیں کیا ہے وہ یہ ہے کہ مصنوعی ذہانت کے ’ٹیک برو‘ کلچر کا میدان بن جانے اور ڈیٹا سیٹوں میں تعصب اور امتیازی سلوک کے سرایت کر جانے کا خطرہ ہے جس سے امتیازی سلوک کی جڑیں مضبوط ہوں گی۔

ہیریئٹ ہرمن برطانوی لیبر پارٹی کی رکن پارلیمان ہیں (فائل فوٹو/ اے ایف پی)

ہر کوئی اتفاق کرتا ہے کہ مصنوعی ذہانت پہلے سے ہی بہت اچھے اچھے کام کر رہی ہے۔ مثال کے طور پر اس کی مدد سے چھاتی کے سرطان کی تشخیص کے لیے میموگرامز میں تیزی لانے سمیت ان کا زیادہ قابل اعتماد تجزیہ کیا جا رہا ہے۔

مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی روشنی کی رفتار سے آگے بڑھ رہی ہے اور بلاشبہ مستقبل میں پہلے سے بھی زیادہ اچھا کام کرے گی۔

واضح طور پر ہمیں ایک ملک کی حیثیت سے اپنے بہت سے وسائل کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہے تاکہ مصنوعی ذہانت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جا سکے۔ تاہم ٹیکنالوجی کے اس نئے محاذ پر حکومت کا ردعمل ناکافی دکھائی دیتا ہے۔

ہمیں این ایچ ایس (نیشنل ہیلتھ سروسز) کی افرادی قوت کی حکمت عملی کی طرح مصنوعی ذہانت کے لیے فوری اور دوررس حکمت عملی کی ضرورت ہے۔

ہمیں اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ مصنوعی ذہانت مساوی ایجنڈے کا حصہ ہو، اپنے استعمال کے مواقع کو فروغ دے، سکاٹ لینڈ اور ویلز سمیت ہر خطے کے باصلاحیت افراد کو اس تک رسائی حاصل ہو۔

ہمیں سرکاری شعبے کے ان تمام اداروں میں ہم آہنگی پیدا کرنے کی ضرورت ہے جو اس پر آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کر رہے ہیں اور الگ الگ تجربات میں مصروف ہیں۔ ہمیں ڈیٹا کو اپنے بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے حصے کے طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے جس طرح ہم ان سڑکوں اور ریلوے نظام کو اہمیت دیتے ہیں جنہیں ہم کام پر جانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ یہ ٹیکنالوجی برطانیہ میں ترقی کے ہموار راستے پر گامزن ہو، ہمیں مضبوط قواعد و ضوابط کی بھی ضرورت ہے جو مصنوعی ذہانت کو پھلنے پھولنے کے قابل بنائیں لیکن مسائل پیدا ہونے سے پہلے ان کی نشاندہی اور روک تھام کرسکیں۔

ضوابط کا عمومی نمونہ بنیادی قانون سازی ہے جس میں ثانوی قانون سازی شامل ہے جسے پارلیمنٹ منظور کرتی ہے اور ان قوانین کو بااختیار اداروں کے ذریعہ نافذ کیا جاتا ہے جنہیں ایسا کرنے کا اختیار قانونی ہوتا ہے۔

لیکن مصنوعی ذہانت کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ اگرچہ یہ بہت تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے لیکن قانون سازی کی رفتار تکلیف دہ طور پر سست ہے۔

یہ رفتار اور بھی زیادہ سست ہو جاتی ہے جب پارلیمنٹ کسی نئے اور پیچیدہ معاملے پر غور کرنا شروع کرتی ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ جب تک ہمارے قوانین کو شاہی منظوری ملتی ہے تب تک وہ پہلے ہی کئی سال پرانے ہو چکے ہوتے ہیں۔

سابق وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کے پہلے اعلان سے لے کر آن لائن سیفٹی بل کی منظوری تک 10 سال گزر چکے ہیں۔ یہ اے آئی ریگولیشن کے معاملے میں مایوس کن مدت ہے۔

کسی معاملے کو باضابطہ بنانے کے لیے اسے مکمل طور پر سمجھ نہ پانے کی صورت میں ہم مصنوعی ذہانت کو باضابطہ بنانے کے لیے ایسے قوانین منظور نہیں کر سکتے جو کوئی معنی رکھتے ہوں۔

اگرچہ ہم جانتے ہیں کہ ایسا ہوگا لیکن ہم پوری طرح سے اس کی پیشگوئی نہیں کرسکتے ہیں کہ وقت کے ساتھ مصنوعی ذہانت کس طرح آگے بڑھے گی۔

اس کا جواب یہ نہیں ہے کہ انتظامی اختیار کے ذریعہ باضابطہ بنانے کا سارا کام حکومت پر چھوڑ دیا جائے۔ یہ سرکاری پالیسی کے اہم معاملات ہیں اور پارلیمنٹ کو اس کا حصہ بننا چاہیے۔ پالیسی کا فیصلہ اداروں پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ پارلیمنٹ کو سرکاری پالیسی کا فیصلہ کرنا چاہیے اور ریگولیٹرز کا کردار اس پر عمل درآمد کروانا ہونا چاہیے۔

ہم پارلیمنٹ کے ذریعے ماہرانہ انداز میں، حقیقی وقت میں تیز رفتار، سمارٹ قوانین اور قواعد و ضوابط حاصل کرسکتے ہیں۔ لیکن ایسا کرنے کی خاطر ہمیں اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے اپنے پارلیمانی طریقہ کار کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

ہم سائنس، جدت طرازی اور ٹیکنالوجی کمیٹی (شاید بزنس اینڈ ٹریڈ سلیکٹ کمیٹی کے ساتھ مشترکہ طور پر) کو اضافی وسائل کے ساتھ بااختیار بنا سکتے ہیں اور بنیادی قانون سازی کے ذریعے پارلیمنٹ کی جانب سے سلیکٹ کمیٹیوں کو ریگولیٹ کرنے کا اختیار دے سکتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ قانون سلیکٹ کمیٹی کو باضابطہ بنانے کرنے کا وسیع اختیار دے گا۔ اس کے بعد پارلیمنٹ معمول کے مطابق سلیکٹ کمیٹی کے کام کا جائزہ لیتی رہے گی۔ اس طرح آپ کو حقیقی مہارت رکھنے والے ارکان پارلیمنٹ کی ایک کمیٹی مل جائے گی اور اسے مصنوعی ذہانت کی ترقی کی رفتار کو ریگولیٹ کرنے کے لیے پارلیمنٹ کی طرف سے دیا گیا اختیار حاصل ہو گا۔

ضرورت پڑنے پر پارلیمنٹ کی جانب سے نئے طریقہ کار اپنانے کی بہت سی مثالیں موجود ہیں اور مصنوعی ذہانت کو باضابطہ بنانے کے لیے نیا طریقہ کار تبدیلی کا کلاسک کیس ہے۔

ایک مسئلہ جسے حکومت نے تسلیم نہیں کیا ہے وہ یہ ہے کہ مصنوعی ذہانت کے ’ٹیک برو‘ کلچر کا میدان بن جانے اور ڈیٹا سیٹوں میں تعصب اور امتیازی سلوک کے سرایت کر جانے کا خطرہ ہے جس سے امتیازی سلوک کی جڑیں مضبوط ہوں گی جسے ختم کرنا سرکاری پالیسی ہے۔

جنس، نسل یا سماجی طبقے کی بنیاد پر امتیاز اس وقت کافی برا ثابت ہوتا جب یہ آپ کو واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں اور اس کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں۔

لیکن پوشیدہ تعصب جسے چیلنج نہیں کیا جا سکتا خوفناک ثابت ہوگا۔ یہ برابری کی طرف ہماری پیشرفت کو ممکنہ طور پر روک دے گا اور اگر یہ ہمارے ڈیٹا سیٹس کو آلودہ کرے گا اور الگورتھم کا حصہ بنتا ہے تو وقت کو پلٹا دے گا۔

اس میدان کے بہت سے اداروں کی موجودگی میں اوپن ڈیٹا انسٹی ٹیوٹ (او ڈی آئی) عدم مساوات ، تعصبات اور امتیازی سلوک سے نمٹنے کے لیے ایک اہم قدم کے طور پر مضبوط ڈیٹا انفراسٹرکچر کے عزم کی حمایت کرتا ہے۔

مصنوعی ذہانت میں پہلے ہی ناگوار ’ٹیک برو‘ ثقافت موجود ہے۔ اس سال کے اوائل میں فوسیٹ سوسائٹی کی تحقیق سے پتہ چلا کہ اس شعبے میں کام کرنے والے تقریباً نصف مرد حضرات کا خیال ہے کہ افرادی قوت میں صنفی توازن سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

پانچ میں سے ایک کا خیال ہے کہ خواتین اس شعبے میں ملازمت کے لیے کم موزوں ہیں۔

تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ یہ رویہ خواتین کو اس شعبے میں رہنے سے روکتا ہے اور اس طرح اسے آدھی آبادی کی صلاحیتوں سے محروم کر دیتا ہے۔

اے آئی کی ترقی میں ہم سب کا حصہ ہے۔ ہم سب کو پارلیمنٹ کے ذریعے اس بارے میں بات کرنے کی ضرورت ہے کہ اسے کس طرح ریگولیٹ کیا جائے اور اسے آگے لے جانے کے لیے خواتین اور مرد حضرات دونوں کی ضرورت ہے۔

ہیریٹ ہرمن لیبر پارٹی کی رکن پارلیمنٹ ہیں اور وہ کیمبرویل اور پیکہم سے رکن پارلیمنٹ ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر