مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی میں حکومت سازی پر اتفاق، زرداری صدر، شہباز وزیراعظم

دونوں جماعتوں میں طے پانے والے معاہدے کے تحت پاکستان مسلم لیگ ن کے شہباز شریف وزیر اعظم اور پیپلز پارٹی کے آصف علی زرداری صدر مملکت بنیں گے۔

حکومت سازی کے لیے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان معاملات طے پا گئے ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلال بھٹو زرداری نے اسلام آباد میں پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دونوں جماعتوں نے حکومت سازی کے لیے قومی اسمبلی میں اپنے نمبر پورے کر لیے ہیں۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ آئندہ وزیراعظم کے لیے شہباز شریف دونوں پارٹیوں کے متفقہ امیدوار ہوں گے جب کہ  آصف زرداری صدر کے لیے مشترکہ امیدوار ہوں گے۔

 اس موقع پر شہباز شریف کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے پاس حکومت بنانے کے نمبر پورے ہیں۔ ’ہم نئی حکومت بنانےکی پوزیشن میں ہیں۔‘

شہباز شریف کا مزید کہنا تھا کہ آزاد امیدوار اپنی اکثریت ثابت کریں اور  حکومت بنائیں۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم دل سے قبول کریں گے۔ تحریک انصاف نے سنی اتحاد کونسل اور ایم ڈبلیو ایم سے اتحاد کیا، لیکن اس کے باوجود ان کے پاس حکومت  بنانےکے لیے نمبر پورے نہیں ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ وہ مشاورت کے ساتھ آگے بڑھیں گے۔ ’طے پایا ہے کہ آصف علی زرداری کو اگلے 5 برس کےلیے صدر مملکت بنایا جائے گا۔‘

صدر ن لیگ کا کہنا تھا کہ آصف زرداری اور بلاول کے بھرپور تعاون پر ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں، یہ باریاں لینے کی بات نہیں، ہمیں پاکستان کو مشکلات سے نکالنا ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ مسلم لیگ (ق)، ایم کیو ایم اور آئی پی پی ہمارے اتحادی ہیں، ہمارے اس اتحاد میں بزرگ بھی ہیں اور جوان بھی، دونوں مل جائیں تو بڑی طاقت بنتے ہیں۔

آصف علی زرداری نے کہا کہ سب دوستوں کو خوش آمدید کہتے ہیں، یقین دلاتے ہیں آنے والی نسلوں کے لیے مل کر کام کریں گے۔

اس سے قبل اسلام آباد میں دونوں جماعتوں کے رہنماؤں کے درمیان ملاقات ہوئی جس میں حکومت سازی سے متعلق امور پر گفتگو ہوئی۔

ملاقات میں بلاول بھٹو، شہباز شریف، اسحاق ڈار ، مراد علی شاہ، قمر زمان کائرہ اور  احسن اقبال بھی موجود تھے۔


اگر سیاسی جماعتوں میں اتفاق رائے نہیں ہوتا تو آئین میں اس کا حل موجود ہے: مرتضیٰ سولنگی

نگران وفاقی وزیر اطلاعات و پارلیمانی امور مرتضیٰ سولنگی نے حالیہ عام انتخابات کے بعد حکومت سازی میں تعطل کے معاملے پر منگل کو کہا ہے کہ اگر سیاسی جماعتوں میں اتفاق رائے نہیں ہوتا تو آئین میں اس کا حل موجود ہے۔

اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاﺅس کے باہر میڈیا سے گفتگو میں مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ ’آج 20 فروری ہے، آئین کے تحت 29 فروری آخری دن ہے قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کا، اس میں نو دس دن باقی ہیں، کوئی تعطل نہیں، ڈیڈ لاک نہیں ہے۔ یہ ایک معمول کی کارروائی ہے۔‘

مرتضیٰ سولنگی کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ ایک منقسم پارلیمان ہے، جس میں کسی جماعت کے پاس اکثریت نہں ہے، اس سلسلے میں مذاکرات چل رہے ہیں اور میرا خیال ہے کہ تیزی کے ساتھ تکمیل کو پہنچ جائیں گے۔‘

ساتھ ہی نگران وزیر نے کہا: ’لیکن خدانخواستہ فرض کریں کہ متحارب سیاسی جماعتوں کے درمیان کسی قسم کا اتفاق رائے پیدا نہیں ہوتا تو ہمارا آئین خاصا جامع اور مفصل ہے اور ہر صورت حال سے نکلنے کے راستے اسی آئین کے اندر موجود ہیں۔‘


حکومت سازی کی تاخیر میں پیپلز پارٹی کا کوئی کردار نہیں: بلاول بھٹو

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے منگل کو کہا ہے کہ ان کی جماعت کا حکومت سازی میں تاخیر کے حوالے سے کوئی کردار نہیں ہے۔

منگل کو سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ انتخابات میں ان کی جماعت کو اتنی نشستیں نہیں ملیں کہ وہ اکیلے حکومت بنا سکے، اس لیے پیپلز پارٹی حکومت بنانے کے لیے اپنی شرائط پر پاکستان مسلم لیگ ن کی حمایت کرے گی۔

ان کے بقول: ’عوام نے کسی ایک جماعت کو مینڈیٹ نہیں دیا۔ عوام کی دانشمندی اور شعور دیکھیں کہ انہوں نے کسی ایک جماعت کو اکثریت ہی نہیں دی کہ وہ اپنے اکیلے حکومت کرے، انہوں نے پیغام دیا ہے کہ ملک صرف ایک جماعت نہیں چلاسکتی، سب کو مل کر فیصلہ سازی کرنا چاہیے۔‘

پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے مزید کہا کہ ’حقیقت یہ ہے کہ عوام نے ایسا فیصلہ دیا ہے جس پر اب مجبوراً تمام سٹیک ہولڈرز اور سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر اتفاق کرنا پڑے گا تاکہ ہم نہ صرف اپنی جمہوریت بلکہ پارلیمانی نظام، معیشت اور وفاق کو بچا سکیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت سازی کے عمل میں تاخیر سے ملک میں سیاسی استحکام پر سوالات اٹھ رہے ہیں، اس لیے جتنی جلدی حکومت سازی کا عمل مکمل ہوجائے اتنا ہی بہتر ہے۔‘


سینیٹ اجلاس میں انتخابی نتائج پر بحث

سینیٹ اجلاس میں منگل کو آٹھ فروری کے عام انتخابات کے نتائج پر بحث کے دوران جہاں پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹرز نے جوڈیشل انکوائری سمیت دیگر مطالبات کیے، وہیں مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز نے نتائج تسلیم کرکے آگے بڑھنے کا مشورہ دیا۔

ڈپٹی چیئرمین سینیٹ محمد آفریدی کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ ’الیکشن اس لیے ہوتا ہے کہ ملک بحرانوں سے نکلے اور قوم کو سیاسی و معاشی استحکام دیا جائے، لیکن یہ کیسا الیکشن ہے جس نے قوم کو ایک عظیم تر سیاسی اور معاشی بحران میں دکھیل دیا ہے۔‘

بقول سینیٹر مشتاق احمد: ’الیکشن میں دھاندلی میں ملوث لوگ قومی مجرم ہیں۔۔ بین الاقوامی اداروں نے کہا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت تنزلی کا شکار ہے۔‘

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’بلٹ نے بیلٹ کو اغوا کیا، گولی نے پرچی کو اغوا کیا ہے۔‘

سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ ’چند سرکاری افسر بند دروازوں کے پیچھے بیٹھ کر 25  کروڑ عوام کی قمست کا قوم کا فیصلہ کریں گے،  اب عوام جان چکے ہیں کہ حمکرانی ہمارا حق ہے۔‘

انہوں نے ایوان میں کہا: ’میں حکومت سے مطالبہ کرتا ہوں کہ الیکشن کمیشن معافی مانگے، چیف الیکشن کمشنر مستعفی ہوں، ان کے خلاف آرٹیکل 6 کی کارروائی ہو، قوم کا جو 50 ارب روپے اس الیکشن پر خرچ ہوا ہے، وہ ان لوگوں سے واپس لیا جائے، ان لوگوں نے اس الیکشن مں دھاندلی کی ہے، ایک با اختیار جوڈیشل کمشین قائم کیا جائے جو پورے پاکستان میں فارم 45 سے متعلق انکوائری کرے۔‘

دوسری جانب مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے سینیٹر عرفان صدیقی نے پاکستان میں عام انتخابات کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ’اس میں دو رائے نہیں ہے کہ ہمارے یہاں انتخابات کی تاریخ کچھ زیادہ خوشگوار نہیں ہے۔

سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ قوموں کے ہاں انتخابات کے بعد مسائل حل ہوتے ہیں، وہ آگے بڑھتی ہیں اور اپنا لائحہ عمل بناتی ہیں، ایک ٹھہراؤ آتا ہے، لیکن ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا اور یہ سلسلہ 1970 سے جاری ہے۔

انہوں نے پاکستان میں انتخابات کی تاریخ بتاتے ہوئے کہا کہ 1947 میں پاکستان بنا اور 23 سال بعد تک ہم انتخابات نہیں کروا سکے، 1958 میں جب پہلے انتخابات ہونے لگے تو طویل مارشل لا آگیا، پھر 1970 کے انتخابات میں اکثریت کا فیصلہ تسلیم نہیں کیا جاتا لہذا ملک ٹوٹ جاتا ہے۔ یہ انتہائی افسوس ناک ہے۔

سینیٹر عرفان صدیقی نے مزید کہا کہ 1979 میں بھی دھاندلی کا شور اٹھتا ہے، پھر 11 سالہ مارشل لا ہمارا مقدر ہو جاتا ہے، بعد میں بھی کسی حکوت کو اپنی میعاد پوری نہیں کرنے دی گئی۔ حالیہ انتخابات میں بھی ایسا ہی ہوا۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’ہمیں 2018 کا بھی ذکر کرنا چاہیے، وہ تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے، چار دن بعد نتائج کا علان ہوا تھا، نتائج برستے رہے کبھی دن کو، کبھی شام کو۔‘

انہوں نے حالیہ عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے دھاندلی کے الزامات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ آج جو کچھ ہوا ہے، وہ پورے ملک میں ہوا ہے۔ کیا خیبرپختونخوا میں امام کعبہ یا امام ابو حنیفہ نے الیکشن کروایا ہے؟

’الیشکن متازع ہیں تو آپ کے ہاتھ میں جو فارم 45 ہے، وہ قرآن کا ورق ہے اور میرے ہاتھ میں جو ہے وہ پلید ہے۔‘

سینیٹر عرفان صدیقی نے 2013 کے الیکشن کے بھی ذکر کیا، جہاں ان کے مطابق ’پی ٹی آئی کی جانب سے چار مہینے کے احتجاجی دھرنے میں 35 پنکچر کا نعرہ لگایا گیا اور آج فارم 45 کا نعرہ لگایا گیا ہے۔‘

انہوں نے پی ٹی آئی کے الزامات کے ردعمل میں مزید کہا: ’جہاں جہاں آپ جیتے ہیں وہ دھاندلی سے پاک ہے اور جہاں مخالف جیتے ہیں وہ دھاندلی سے جیتے ہیں۔‘


پیپلز پارٹی ۔ ن لیگ معاہدے میں تاحال تعطل

پاکستان میں حکومت سازی کے لیے مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کی رابطہ کمیٹیوں کے درمیان مذاکرات کے پانچ دور ہو چکے ہیں لیکن ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان تاحال معاملات طے نہیں پا سکے۔

پیر کی شام اسلام آباد میں ہونے والا مذاکرات کا پانچواں دور بھی بے نتیجہ ختم ہوا، تاہم مسلم لیگ ن کی کمیٹی کے ایک رکن اعظم نذیر تارڑ نے میڈیا کو بتایا کہ منگل کو بات چیت ایک اور دور ہو گا جس میں حکومت سازی سے متعلق معاملات طے پا جائیں گے۔

دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زداری کا کہنا ہے کہ ’ہم نہ وزارتیں چاہتے ہیں، نہ کرسی چاہتے ہیں، ہم صرف پاکستان کے عوام کے مسائل حل کرنا چاہتے ہیں۔‘

بلاول بھٹو کا بیان بظاہر اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ پیپلز پارٹی اقتدار میں شراکت کر کے کسی قسم کا بوجھ اپنے سر نہیں لینا چاہتی۔


صدر کا عوامی مینڈیٹ کے احترام کا مشورہ

صدرعارف علوی نے ایک تقریب سے خطاب میں کہا کہ ملک کی ترقی و خوشحالی کے لیے عوام کے مینڈیٹ کا احترام لازم ہے۔ ’اگر نظام پر نوجوانوں کا اعتماد متزلزل ہوا تو یہ ملکی مفاد میں نہیں ہو گا۔‘

پاکستان میں آٹھ فرروی 2024 کو ہونے والے عام انتخابات میں کسی ایک جماعت کو واضح اکثریت نہیں ملی، اس لیے نتائج کے 10 روز بعد بھی حکومت سازی سے متعلق معاملات طے نہیں پا سکے ہیں اور مختلف سیاسی جماعتیں مشاورت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی، جو سابق وزیر اعظم عمران خان کی ساڑھے تین سالہ حکومت کے دوران پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کا حصہ رہ چکی ہیں، آٹھ فروری سے ملک کے سیاسی تعطل کو ختم کرنے کی دعویدار ہیں۔

پاکستان کے 12 ویں پارلیمانی انتخابات میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ 92 امیدواروں نے آزاد حیثیت میں کامیابی حاصل کی۔ دوسرے نمبر پر مسلم لیگ ن نے 75 نشستیں حاصل کیں جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے حصے میں 54 نشستیں آئیں۔

پیپلز پارٹی نے منقسم مینڈیٹ کے باعث مسلم لیگ ن کو وفاقی حکومت بنانے میں مدد کی پیشکش کی ہے، جب کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کی جماعت ابھی تک اتحادیوں کے بغیر حکومت بنانے میں ہچکچاہٹ کا شکار نظر آ رہی ہے۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان