پاکستان میں عام انتخابات کے بعد نئی حکومت کے لیے سیاسی رابطوں کا سلسلہ جاری ہے جبکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی ممکنہ مخلوط حکومت کو معیشت، سکیورٹی اور سیاسی معاملات کے علاوہ پی آئی اے کی نجکاری اور ایف بی آر اصلاحات کئی کے چیلینجز کا سامنا ہو گا۔
حالیہ انتخابات کے بعد اگرچہ کوئی ایک جماعت اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ اکیلے حکومت بنا سکے لیکن حکومت میں آنے کی خواہش ہر جماعت کی ہے تاہم یہ حکومت معاشی سیاسی اور سکیورٹی چیلنجز سے بھرپور ہو گی جس کی ذمہ داری نئی حکومت کے کندھوں پر ہو گی۔
کامیاب ہونے والے امیدواروں میں پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد میاں محمد نواز شریف نے انتخابات سے اگلے روز اپنی تقریر میں کہا تھا کہ ’ہمارا فرض ہے کہ اس ملک کو بھنور سے نکالنے کی تدبیر کریں۔
’سب کو دعوت دیتے ہیں کہ اس زخمی پاکستان کو مشکلات سے نکالنے کے لیے ہمارے ساتھ بیٹھیں۔ ملک میں استحکام کے لیے کم از کم دس سال چاہئیں، پاکستان اس وقت کسی لڑائی کا متحمل نہیں ہوسکتا سب کومل کر بیٹھنا ہوگا، معاملات طے کرنے ہوں گے۔‘
جبکہ گذشتہ ماہ انتخابی جلسے میں تقریر کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ ’پاکستان کو مشکل معاشی حالات کا سامنا ہے، حکومت میں آئے عوام کو تعلیم اور صحت کی سہولیات کی فراہمی اولین ترجیح ہے۔‘
انہوں نے کہا تھا کہ ’میں ملک میں بھوک مٹاؤ پروگرام لانا چاہتا ہوں، غریب بچوں کے لیے مفت معیاری تعلیم چاہتا ہوں۔‘
انتخابات کے بعد نئی حکومت کتنے دن میں بنے گی؟
اس حوالے سے آئین کے آرٹیکل 91 شق دو میں درج ہے کہ انتخابات کے دن کے 21ویں روز بعد قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس ہوگا، یا صدر پاکستان اس سے پہلے بھی اجلاس طلب کرسکتے ہیں۔
آٹھ فروری انتخابات کے بعد 21 روز 29 فروری کو پورے ہوں گے اس لیے ممکنہ طور پر قومی اسمبلی کا اجلاس 29 فروری بروز جمعرات ہو سکتا ہے۔
شق تین کے مطابق اسمبلی کے پہلے روز سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے انتخاب کے بعد وزیراعظم کا انتخاب کیا جائے گا۔
شق چار کے مطابق وزیراعظم کا انتخاب الیکٹورل کالج سے ہوگا یعنی اراکان پارلیمنٹ اپنے ووٹوں سے وزیراعظم پاکستان کا چناؤ کریں گے۔
انڈپینڈنٹ اردو نے پاکستان کو نومنتخب حکومت کو درپیش چیلنجز کے حوالے سے مختلف شعبہ زندگی کے تجزیہ کاروں سے بات چیت کی ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کا منڈلاتا خطرہ
سینیئر صحافی اویس یوسف زئی نے کہا کہ ’سب سے الارمنگ چیلنج موسمیاتی تبدیلی ہے جس کا اثر پاکستان کی زراعت کے شعبے پر براہ راست پڑے گا، اس حوالے سے لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہو گی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پہلے مرحلے پر نئی حکومت کو چند اقدامات کرنا ہوں گے۔ مہنگائی پر قابو پانا، ملک میں سرمایہ کاری لانا، معاشی میدان میں مضبوطی اور آئی ایم ایف پروگرام بحالی۔
’جبکہ دوسرے مرحلے میں زرعی اصلاحات، تعلیمی اور صحت کے شعبے میں ترقیاتی کام، انفراسٹرکچر کی بہتری تاکہ کاروبار اور روزگار کے مواقع بڑھیں اور تعلیم میں باالخصوص آئی ٹی کے شعبے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔‘
آئی ایم ایف سے آخری قسط اور نئے پروگرام کا ایجنڈا
معاشی امور کے ماہر صحافی شہباز رانا کا کہنا ہے کہ ’اس وقت بڑا چیلینج یہ ہے کہ نتائج آنے کے بعد ایک مستحکم حکومت بن جائے کیونکہ معاشی استحکام کی بنیاد ہے ایک مستحکم حکومت ہے۔
’اگر فوری طور پر مستحکم حکومت نہیں بنے گی تو اس کے تین نقصانات ہیں، سب سے پہلا نقصان یہ ہو گا کہ ابھی جو ایکسچینج ریٹ میں استحکام ہے وہ متاثر ہو سکتا ہے روپیہ قدر کھو سکتا ہے۔
’دوسرا اس کا یہ نقصان ہو گا کہ سٹاک مارکیٹ بھی انڈر پریشر آ سکتی ہے، اگر حکومت بنانے میں زیادہ وقت لگ گیا تو پاکستان اور آئی ایم ایف کے مابین مذاکرات اور آخری قسط ملنے میں تاخیر ہو سکتی ہے۔‘
ان کے مطابق ’نئی منتخب حکومت کا فوری چیلنج آئی ایم ایف سے مذاکرات ہوں گے، جو 1.2 بلین ڈالرز کا جائزہ زیر التوا ہے اس کے لیے مذاکرات کا سلسلہ آئی ایم ایف کے ساتھ دوبارہ شروع ہونا ہے۔ اس کے علاوہ مہنگائی پر قابو پانا بھی ایک مسئلہ ہو گا۔‘
انہوں نے کہا ’ایف بی آر میں اصلاحات کا جو مسئلہ تھا وہ اتنی بڑی اصلاحات نہیں تھیں بلکہ ایف بی آر کی تنظیم نو کا منصوبہ تھا جس پر ابھی کوئی حتمی پلان بھی نہیں بنا اس لیے اس پر کوئی فرق نہیں پڑے گا جو بھی نئی حکومت آئے گی اس کے وقت ہو گا کہ ایف بی آر کی تنظیم نو کا جائزہ لے۔‘
سکیورٹی چیلنجز کا حل بھی بات چیت ہی ہے
دفاعی امور کے ماہر تجزیہ کار قمر چیمہ نے کہا کہ ’لگ رہا ہے پاکستان میں قومی اتحادی حکومت بننے جا رہی ہے۔ ایران کے ساتھ حالیہ سرحدی جھڑپ اور مشرقی مغربی سرحدوں پر منڈلاتے خطروں کے سبب سکیورٹی معاملات بھی ایک اہم چیلنج ہوگا۔
’پاکستان کی سکیورٹی مضبوط ہاتھوں میں ہے لیکن معاشی صورت حال ایسی ہے کہ جنگ کے متحمل نہیں ہو سکتے بلکہ خطے میں کوئی ملک جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔‘
ان کے مطابق ’نو منتخب حکومت دیکھے گی کہ انڈیا میں انتخابات کے بعد کی نئی حکومت مودی کے ساتھ بات چیت آگے بڑھائے گی یا نہیں؟
’مشرقی مغربی سرحد اور ساتھ ایران کے ساتھ رابطے فعال کیے جائیں تاکہ سرحدی کشیدگی پیدا نہ ہو، مختلف دفاعی پروگراموں کے لیے امریکہ کے ساتھ بھی تعلقات ازسر نو شروع کرنے ہوں گے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’اگر اتحادی حکومت بنے گی اور تحریک انصاف کے آزاد امیدوار اپوزیشن میں جاتے ہیں تو نئی حکومت کے لیے مضبوط اپوزیشن کی وجہ کئی اہم بل پاس کروانا مسئلہ ہو گا۔‘
کامیاب خارجہ پالیسی کے لیے پانچ سفارتی نکات
ترقی یافتہ ممالک، دوست ممالک اور ہمسایہ ممالک سے تعلقات کے تناظر میں سابق سفیر عبدالباسط نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’گذشتہ ماہ سفیروں کی جو کانفرنس کی گئی تھی اس میں مرتب کی جانے والی سفارشات نگران حکومت کے لیے نہیں بلکہ آنے والی منتخب حکومت کے لیے سفارتی سطح پر درپیش چیلنجز سے نمٹنے کی تیاری تھی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ اگلی حکومت کون بناتا ہے ان سب باتوں کے باوجود اسلام آباد کو ایسی ایڈجسٹمنٹ کی ضرورت ہے، جس سے علاقائی اور عالمی منظرناموں میں پاکستان کے مفادات کا تحفظ کیا جائے۔‘
سابق سیفر نے مزید کہا کہ ’پانچ اہم شعبے ہیں جن کے بارے میں اسلام آباد میں اگلی حکومت کو واضح ہونا ضروری ہے۔ جس کے مطابق اسے فوکس ڈپلومیسی کرنے کی اجازت دی جائے۔ نتائج دینے کے لیے پانچ سال ایک اچھا ٹائم فریم ہے۔
’سب سے پہلے، چین کے ساتھ تزویراتی تعلقات کو ناصرف محفوظ رکھا جانا چاہیے بلکہ مزید مضبوط ہونا چاہیے۔‘
’اگلے وزیر اعظم کو یہ مشورہ دیا جائے کہ وہ اپنے غیر ملکی دوروں کا آغاز بیجنگ سے کریں۔ نمبر دو، سعودی عرب اور خلیجی خطے کے ساتھ پاکستان کے تعلقات خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان ایک پائیدار ’گو گلف‘ پالیسی لے کر آئے۔‘
ان کے مطابق ’سفارت کاری بے شمار غیر متوقع طریقوں سے کام کر سکتی ہے، بشرط یہ کہ قابل حصول مقصد کے ساتھ ایک نقطہ نظر واضح طور پر بیان کیا گیا ہو۔ امید ہے کہ اسلام آباد میں اگلی حکومت یہ کام کرے گی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ ’تیسرا، علاقائی استحکام پاکستان کے لیے اپنی معاشی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے بلاشبہ ضروری ہے۔ اس کے لیے افغانستان اور انڈیا کے ساتھ تعلقات کو تحمل سے نبھانا ہو گا۔ افغانستان کے ساتھ پائیدار دو طرفہ بات چیت سے باہمی شکایات کو دور کرنے میں مدد ملنی چاہیے۔
’مشرقی سرحد، اسلام آباد کو خاص طور پر اپنی کشمیر پالیسی پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے۔
’اگست 2019 میں انڈیا کی طرف سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کرنے کے بعد بیک چینل بات چیت کے دوران نئی دہلی کے ساتھ 20 سال تک تنازعہ کو منجمد کرنے پر ایک تجویز کے طور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔‘
ان کے مطابق ’اگر مودی اس سال مئی میں تیسری مدت کے لیے جیت جاتے ہیں، تو وہ ممکنہ طور پر پاکستان تک پہنچنے کے لیے بہت زیادہ خواہش مند ہوں گے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’چوتھا نکتہ یہ ہے کہ پاکستان امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ اسلام آباد کو ترقی یافتہ ممالک سے دوطرفہ تعلقات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔‘
جبکہ پانچواں نکتہ یہ ہے کہ وزارت خارجہ کو مزید وسائل اور اصلاحات کی ضرورت ہے۔ اصلاحات میں نئی منتخب حکومت کو اقتصادی امور کے ڈویژن اور وزارت اطلاعات کے ایکسٹرنل پبلسٹی ونگ کو دفتر خارجہ میں ضم کرنے پر غور کرنا چاہیے۔
’یہ ہم آہنگی پیدا کرنے اور اقتصادی اور عوامی سفارت کاری کو بامعنی بنانے کے لیے ضروری ہے۔‘
سابق سیکرٹری خارجہ سلمان بشیر نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’نئی حکومت کو ملکی اقتصادی کمزوری اور آئی ایم ایف کی فنڈنگ کو برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ روایتی دوستوں اور بڑی طاقتوں کے ساتھ تعلقات کو برقرار رکھنے کی ضرورت ہے، ایک آزاد خارجہ پالیسی کا خواب بہت مثالی ہے۔
’ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات پہلی ترجیح اور معاشی استحکام کے اقدامات پر توجہ مرکوز کرنے میں صبر و تحمل سے کام لینا ہو گا۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔