دنیا کی 20 بڑی معیشتوں کی تنظیم جی20 کے وزرائے خارجہ کا دو روزہ اجلاس بدھ کو برازیل میں شروع ہوا جس کے ایجنڈے میں غزہ پر اسرائیلی جارحیت اور یوکرین کی جنگوں سے لے کر بڑھتی ہوئی (تقطیب) یعنی پولرائزیشن جیسے تنازعات اور بحران شامل ہیں۔
فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن اور روسی وزیر خارجہ سرگئے لاوروف رواں سال کے پہلے اعلیٰ سطح کے جی20 اجلاس میں شرکت کے لیے ریو ڈی جنیرو پہنچیں گے جبکہ چین کے وانگ یی نہیں ہوں گے۔
تنازعات کا شکار اور منقسم دنیا میں، برازیل، جس نے دسمبر میں انڈیا سے جی 20 کی صدارت سنبھالی تھی، نے امید ظاہر کی ہے کہ ’یہ بین الاقوامی ایجنڈے پر مثبت اثر انداز ہونے کی سب سے زیادہ صلاحیت رکھنے والا فورم‘ ہے۔
لیکن جی20 کو حل تلاش کرنے والا فورم بنانے کی کوششوں کو اس وقت جھٹکا لگا جب اتوار کو برازیل کے بائیں بازو کے تجربہ کار رہنما صدر لوئیز اناسیو لولا ڈی سلوا نے اسرائیل پر ’نسل کشی‘ کا الزام عائد کرتے ہوئے غزہ پٹی میں ان کی فوجی مہم کا موازنہ ہولوکاسٹ سے کیا۔
اس بیان پر اسرائیل نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا اور اس نے لولا کو ’ناپسندیدہ شخصیت‘ قرار دیا اور اس سے جی20 کے ذریعے تنازعہ کم کرنے کی کوئی بھی کوشش متاثر ہو سکتی ہے۔
بین الاقوامی تعلقات کے ماہر ایگور لوسینا نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ’اگر لولا ڈی سلوا نے سوچا تھا کہ وہ اسرائیل یا یوکرین کے بارے میں امن قراردادیں پیش کریں گے تو اس کا امکان اب ختم ہو گیا ہے۔‘
سات اکتوبر 2023 کو شروع ہونے والی غزہ جارحیت کے چار ماہ بعد بھی امن کی طرف پیش رفت کے امکانات بہت کم نظر آ رہے ہیں۔
امریکہ نے سیزفائر کے متعلق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی نئی قرارداد کو ویٹو کر دیا ہے۔ واشنگٹن کا کہنا ہے کہ اس کا متن حماس کی قید میں موجود اسرائیلیوں کی رہائی اور جاری مذاکرات کو خطرے میں ڈال دے گا۔
اسی طرح یوکرین میں روس کی جنگ کے خاتمے کی جانب کسی قسم کی پیش رفت کے متعلق بھی امیدیں زیادہ نہیں، جس کی وجہ سے بھی جی20 کے ارکان منقسم ہیں۔
مغربی ممالک کی جانب سے صدر ولادی میر پوتن کے حملے کی مذمت کرنے پر زور دیے جانے کے باوجود ستمبر میں نئی دہلی میں منعقد ہونے والے جی20 کے آخری سربراہ اجلاس کا اختتام ایک ایسے بیان کے ساتھ ہوا جس میں طاقت کے استعمال کی مذمت کی گئی تھی لیکن واضح طور پر روس کا نام نہیں لیا گیا تھا، جس نے انڈیا اور برازیل جیسے ساتھی ارکان کے ساتھ دوستانہ تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
یوکرین کے اتحادیوں برطانیہ، کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان اور امریکہ پر مشتمل جی7 گروپ، روس کے حملے کے دو سال مکمل ہونے کے موقعے پر ہفتہ کو جنگ کے بارے میں اپنا ورچوئل اجلاس منعقد کرے گا۔
ریو ڈی جنیرو میں منعقد ہونے والے جی20 اجلاس کا افتتاحی سیشن ’بین الاقوامی کشیدگی سے نمٹنے‘ کے متعلق ہوگا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وزرا جمعرات کو عالمی گورننس اصلاحات پر تبادلہ خیال کریں گے، جو برازیل کا پسندیدہ موضوع ہے، جو چاہتا ہے کہ اقوام متحدہ، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے اداروں میں گلوبل ساؤتھ کے لیے زیادہ سے زیادہ آواز اٹھائی جائے۔
جی20 کے سیاسی مذاکرات کے لیے برازیل کے اعلیٰ سفارت کار موریسیو لیریو نے کہا کہ تنازعات کی تعداد اور سنگینی سرد جنگ کی سطح پر واپس آ گئی ہے۔
انہوں نے منگل کو صحافیوں کو بتایا کہ ’ہمیں نئے تنازعات کو پیدا ہونے سے روکنے کے لیے بین الاقوامی نظام کو اپنانا ہوگا۔‘
برازیل غربت اور آب و ہوا کی تبدیلی کے خلاف لڑائی کو آگے بڑھانے کے لیے بھی اپنی جی20 صدارت کو بھی استعمال کرنا چاہتا ہے۔
اگرچہ جمعے کو جیل میں روسی حزب اختلاف کے رہنما الیکسی نوالنی کی موت کے بعد بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پیش نظر بلنکن اور لاوروف کے درمیان ملاقات کا امکان نظر نہیں آتا، لیکن پھر بھی اجلاس کے موقع پر سائیڈ لائن پر دو طرفہ ملاقاتوں کے لیے جگہ ہوگی۔
بلنکن اور لاوروف کی آخری ملاقات مارچ 2023 میں انڈیا میں ہوئے جی 20 اجلاس میں ہوئی تھی۔
1999 میں قائم ہونے والا گروپ آف 20 میں دنیا کی بیشتر بڑی معیشتیں شامل ہیں۔
یہ بنیادی طور پر ایک اقتصادی فورم ہے جو بین الاقوامی سیاست میں تیزی سے داخل ہوا ہے۔
لوسینا نے کہا کہ اس گروپ کے ذریعے بڑی پیش رفت کے امکانات ایک ایسے سال میں بہت کم ہیں جب امریکہ اور روس جیسے جی20 کے اہم رکن ممالک سمیت تقریبا 50 ممالک میں انتخابات ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ ’بڑے معاہدے ہونا مشکل ہوگا۔ یہ تنازعات حل کرنے کے لیے سازگار ماحول نہیں ہے۔‘
برازیل کے ایک حکومتی ذرائع نے کہا ہے کہ اتفاق رائے کے لیے جی20 کی حالیہ کوششوں کے بعد میزبانوں نے اس شرط کو ختم کر دیا کہ ہر اجلاس ایک مشترکہ بیان جاری ہو سوائے سالانہ سربراہی اجلاس کے، جو نومبر میں ریو ڈی جنیرو میں شیڈول ہے۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔