امن کے نام پر دھوکہ: افغانستان دوحہ معاہدے کے چار سال بعد

دوحہ معاہدے کی تمام بنیادی شرائط میں سے صرف افغانستان سے امریکہ کے انخلا پر عمل درآمد ہوا ہے۔

امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد اور طالبان کے بانی ملا عبدالغنی برادر 29 فروری، 2020 کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ایک تقریب کے دوران امن معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد ہاتھ ملا رہے ہیں (اے ایف پی/ کریم جعفر)

دوحہ معاہدے پر دستخط افغانستان کی جدید تاریخ کے اہم ترین واقعات میں سے ایک ہے۔ یہ معاہدہ افغانستان میں امن کے لیے امریکہ کے سابق خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد کے طالبان کے ساتھ 18 ماہ تک جاری رہنے والے مذاکرات کا نتیجہ ہے۔

دوحہ معاہدے پر دستخط کے بعد طالبان سب سے پہلے افغان دیہات پر قبضہ کرنے، لوگوں کے اغوا، منشیات کی سمگلنگ، یرغمال بنانے اور غیر قانونی ذرائع سے مالی وسائل اور ہتھیار حاصل کرنے میں ملوث دہشت گرد گروہ سے اوپر اٹھتے ہوئے باضابطہ گروپ میں تبدیل ہو گئے۔

اگلے مرحلے میں وہ حکومت جس میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی، طالبان کے حوالے کر دی گئی۔ دوحہ معاہدے کا، جس نے طالبان کو قانونی حیثیت دی، پہلا نکتہ اس گروپ کو ’اسلامی امارت افغانستان‘ کا نام دینا تھا۔

معاہدے کا متن دو حکومتوں کے درمیان ہونے والے معاہدے کو ظاہر کرتا ہے نہ کہ ایسی ایک طاقت ور حکومت کو جس میں کوئی باغی گروپ موجود ہو اور جس کا کوئی علاقہ، کوئی سرکاری اہلکار نہ ہو۔

معاہدے پر دستخط کے عمل میں امریکی حکومت نے طالبان سے نمٹنے کے طریقہ کار کے ذریعے طالبان کے خلاف مزاحمت کے حوصلے پست کر دیے۔ یہاں تک کہ گروپ کے سب سے بڑے دشمنوں کے بھی۔

معاہدے پر دستخط اور سقوط کابل کے بعد احمد مسعود اور امراللہ صالح سمیت افغانستان کے زیادہ تر سیاسی اور جہادی رہنما ملک چھوڑ کر چلے گئے۔

ملا عبدالغنی برادر اور زلمے خلیل زاد کے مابین اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کی موجودگی میں معاہدے میں طالبان کو ’اسلامی امارت افغانستان‘ کہا گیا جو اب طالبان کی حکومت کا نام ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

معاہدے کا ایک اور اہم نکتہ 10 مارچ، 2020 کو سابق افغان حکومت کے نمائندوں کے ساتھ طالبان کے مذاکرات کا آغاز تھا۔

طالبان نے امریکہ کے ساتھ معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد مختلف بہانوں سے سابقہ افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات ملتوی کردیے۔ دونوں فریقوں کے درمیان کبھی سنجیدہ مذاکرات نہیں ہوئے۔

طالبان نے 2004 میں سابق افغان حکومت کے خلاف مسلح بغاوت شروع کرنے کے بعد سے حکومت کے ساتھ مذاکرات کے کسی بھی مطالبے کو مسترد کر دیا۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کی جنگ کا مرکزی فریق امریکی حکومت ہے اور اگر وہ کبھی مذاکرات کے لیے تیار ہوئے تو وہ امریکیوں کے ساتھ مذاکرات کریں گے نہ کہ امریکی حمایت یافتہ افغان حکومت کے ساتھ۔

طالبان نے سابق افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات سے انکار کیوں کیا اور ایک جامع حکومت کی عدم موجودگی کے بارے میں عام رائے یہ ہے کہ معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد طالبان کو امریکہ سے اقتدار میں واپس آنے کے لیے گرین سگنل مل گیا تھا۔

معاہدے کے تحت سابق افغان حکومت نے امریکی دباؤ میں آکر پانچ ہزار سے زیادہ طالبان قیدیوں کو جیلوں سے رہا کر دیا، جن میں خودکش حملہ آور، منشیات کے سمگلر، جان لیوا حملوں کے منصوبہ ساز اور گروپ کے جنگجو شامل تھے۔

اس طرح 2020 کے موسم گرما میں طالبان نے جنگجو بھرتی کیے جو سابقہ افغان حکومت کے خلاف جنگ میں شامل ہو گئے۔

افغان حکومت کی سکیورٹی فورسز میں بڑے پیمانے پر مایوسی کی وجہ سے ان فورسز کو دیہات اور شہروں سے واپس بلانا پڑا۔

سابق افغان حکومت کا مذاکراتی وفد کئی ماہ تک دوحہ میں موجود رہا لیکن طالبان کا خیال تھا کہ امریکی حکومت کے ساتھ معاہدے پر دستخط کے بعد امن مذاکرات کا مشن ختم ہو گیا۔

نتیجتاً انہیں ایسی حکومت کے ساتھ مذاکرات کی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوئی جس کا انحصار امریکی حمایت پر تھا اور وہ افغانستان کے تقریباً 70 فیصد علاقے میں اقتدار کھو چکی تھی۔

دوسری جانب امریکی محکمہ دفاع نے بھی سابق افغان حکومت کی سکیورٹی فورسز کی مدد کم کر دی، یہاں تک کہ افغان فوج کو ہیلی کاپٹروں اور جنگی طیاروں کے ہتھیاروں کی فراہمی روک دی گئی۔

دوحہ معاہدے کا ایک اور نکتہ یہ ہے کہ طالبان کی اقتدار میں واپسی کو یقینی بنایا گیا۔ معاہدے میں ’افغانستان میں نئی دولت اسلامیہ‘ کا ذکر کرنا اس بات پر زور دینا ہے کہ امریکی حکومت اس انتظامیہ کے ساتھ مثبت تعلقات قائم کرنا چاہتی ہے۔

’افغانستان میں نئی اسلامی حکومت‘ کی اصطلاح مبہم ہے اور یہ واضح نہیں کہ آیا امریکی حکومت کا مطلب ’اسلامی امارت افغانستان‘ کی بحالی ہے یا افغانستان میں کسی اور قسم کی حکومت۔

دوحہ معاہدے کی شق نمبر دو میں کہا گیا کہ ’امریکہ اور امارت اسلامیہ افغانستان‘ جسے امریکہ حکومت نہیں بلکہ طالبان کے طور پر تسلیم کرتا ہے، ایک دوسرے کے ساتھ مثبت تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں اور توقع کرتے ہیں کہ اس معاہدے کے بعد امریکہ اور نئی دولت اسلامیہ کے درمیان تعلقات مثبت ہوں گے۔

معاہدے کے بعد امریکہ نئی اسلامی حکومت کے ساتھ معاشی تعاون کرے گا۔ افغان حکومت کے خاتمے اور طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد سے امریکہ افغانستان کے ساتھ سب سے زیادہ تعاون کرنے والے ملکوں میں سے ایک ہے۔

افغانستان کی تعمیر نو کے لیے امریکی دفتر کے انسپیکٹر جنرل (سی آئی جی اے آر) کے مطابق امریکی حکومت نے اس عرصے کے دوران افغانستان کو 2.6 ارب ڈالر سے زیادہ کی امداد دی۔

اس ادارے نے اپنی رپورٹوں میں یہ بھی کہا کہ طالبان کو امداد تک رسائی حاصل ہے اور انہوں نے اس سے فائدہ بھی اٹھایا۔

معاہدے کے عام کیے جانے والے حصوں کو چار طرح سے  ترتیب دیا جا سکتا ہے۔

افغانستان سے امریکی فوجیوں کا مکمل انخلا، اس بات کو یقینی بنانا کہ افغانستان بین الاقوامی دہشت گردوں کی پناہ گاہ نہ بنے، طالبان اور سابق افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کا آغاز اور افغانستان میں جامع اور مستقل جنگ بندی۔

دوحہ معاہدے پر دستخط کے چار سال بعد افغانستان میں امریکہ کے دیرینہ دشمنوں میں سے ایک نے آمرانہ اور یک جماعتی حکومت تشکیل دی ہے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مطابق حکومت نے القاعدہ سمیت بین الاقوامی دہشت گرد گروہوں کے ساتھ بھی تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

معاہدے کے تیسرے حصے کے آرٹیکل پانچ میں کہا گیا کہ ’امارت اسلامیہ افغانستان ان لوگوں کو افغانستان میں داخل ہونے کے لیے ویزا، پاسپورٹ، سفری اجازت نامے یا دیگر قانونی دستاویزات جاری نہیں کرے گی جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی سلامتی کے لیے خطرہ ہوں۔‘

یہ بات واضح ہے کہ دوحہ امن معاہدہ ایک دہشت گرد گروہ کے ساتھ امریکی حکومت کے امن معاہدے سے زیادہ اسلامی جمہوریہ افغانستان کی حکومت کو ’اسلامی امارت افغانستان‘ میں تبدیل کرنے کے منصوبے کی طرح تھا۔

دوحہ معاہدے کے تحت امریکی حکومت سے کیے گئے وعدوں کے برعکس طالبان نے دہشت گرد گروپوں کے ساتھ تعلقات برقرار رکھے اور القاعدہ کے رہنما کو کابل اور دیگر افغان شہروں میں پناہ فراہم کی۔

دوحہ معاہدے کے تحت بین الاقوامی کنونشنوں اور انسانی حقوق کے احترام کے عزم کے برعکس، افغان خواتین اور لڑکیوں کو بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھا گیا اور افغان جیلیں طالبان کے مخالفین اور ناقدین سے بھری ہوئی ہیں۔

دوحہ معاہدے پر دستخط کے چار سال بعد افغانستان اب نہ صرف بڑھتی ہوئی غربت اور انسانی بحران کا شکار ہے بلکہ دنیا میں سب سے زیادہ تنہائی کا شکار ممالک میں سے ایک بن گیا ہے اور اپنے ہمسایوں کے لیے خطرہ بھی ہے۔

نوٹ: اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آرا لازمی طور پر انڈپینڈنٹ فارسی کے مؤقف کی عکاسی نہیں کرتے۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ