افغان طالبان کے اہم رہنما اور مذاکرات کار انس حقانی کا کہنا ہے کہ ’ان کے بجائے امریکہ نے دوحہ معاہدے کی متعدد خلاف ورزیاں کی ہیں۔‘
گذشتہ سال 15 اگست کو اقتدار حاصل کرنے کا ایک سال مکمل ہونے پر قطر کے نشریاتی ادارے الجزیرہ کو ایک انٹرویو میں سینیئر طالبان رہنما انس حقانی نے بتایا کہ طاقت کے زور پر یا تشدد کے ذریعے اقتدار حاصل کرنا طالبان کی کبھی ترجیح نہیں رہی لیکن کابل میں پیدا ہونے والے خلا نے ان کے لیے راہ منتخب کر دی تھی۔
انس حقانی نے کہا: ’ہم نے شروع سے ہی دوحہ معاہدے کا احترام کیا ہے۔ امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کے بعد سے 14 ماہ کے دوران اس طرح کے معاہدے کی خلاف ورزی کا ایک بھی کیس سامنے نہیں آیا جس کا گواہ اس معاہدے کا میزبان ملک قطر ہے۔‘
ان کے بقول: ’اس کے برعکس امریکہ اور سابق (صدر اشرف غنی کی) حکومت کی طرف سے معاہدے کی ایک ہزار سے زیادہ خلاف ورزیاں کی گئیں جن میں صدر بائیڈن کی جانب سے ہمارے ساتھ مذاکرات کیے بغیر دوحہ معاہدے میں طے شدہ واپسی کی مدت میں مزید چار ماہ کی توسیع، امریکہ کی جانب سے طالبان رہنماؤں کے بلیک لسٹ سے نام نکالنے میں تاخیر اور افغان قیدیوں کی رہائی میں بھی تاخیر شامل ہے۔ مایوسی کے باوجود ہم نے تشدد کا سہارا نہ لینے کو ترجیح دی۔‘
طالبان کی ایک سالہ حکومت کے دوران کیا کھویا کیا پایا پر بات کرتے ہوئے انس حقانی نے کہا کہ طالبان حکومت نے پچھلے ایک سال کے دوران بہت بڑی اور کئی پیش رفتیں کی ہیں جن میں سب سے اہم آزادی اور خودمختاری کا حصول ہے کیوں کہ ان کے مطابق طالبان نے اپنے ملک کو ’غیر ملکی قبضے، ناانصافی اور جبر سے نجات‘ دلائی ہے۔
طالبان کے رہنما نے کہا کہ ’یہ 40 سالوں میں پہلی بار ہے کہ ایک مرکزی حکومت کا پورے ملک پر کنٹرول ہے۔ عوام پر پہلے سے لاگو ناجائز محصولات اب ختم کر دیے گئے ہیں۔ ملک میں کوئی عسکریت پسند گروپ کام نہیں کرتا۔ مرکزی حکومت بغیر کسی لیویز یا غیر ملکی امداد کے تمام ریاستی اداروں میں سرکاری ملازمین کی تنخواہیں ادا کرنے کے قابل ہے۔ یہ صرف چند مثالیں ہیں۔‘
خواتین اور انسانی حقوق کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر انس حقانی نے کہا کہ 20 سالوں سے افغانستان پر ’غیر ملکی قبضہ‘ رہا جو اپنی جدید ٹیکنالوجی، بڑی صلاحیتوں اور وسائل کے ساتھ اس طویل عرصے میں ’ناکام‘ ہو گیا۔
’دنیا کو یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ ہم راتوں رات اپنے تمام اہداف حاصل کر لیں گے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے بقول: ’اب آپ لڑکیوں کو 12 گریڈ تک یونیورسٹیوں اور سکولوں میں جاتے ہوتے دیکھ سکتے ہیں۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ہماری تمام وزارتوں اور دیگر ریاستی اداروں میں ابھی بہت سے اقدامات کرنے ہیں۔ ہمیں درپیش چیلنجوں کے باوجود ہم سے یہ توقع نہ رکھیں کہ وہ کچھ حاصل کریں گے جو دوسرے پچھلے 20 سالوں میں حاصل کرنے میں ناکام رہے۔‘
طالبان کے علاوہ دیگر افغان رہنماؤں کو حکومت میں شامل نہ کرنے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ امید ہے کہ یہ مسائل وقت کے ساتھ حل ہو جائیں گے۔
افغانستان میں جاری انسانی اور معاشی بحران کے حوالے سے انس حقانی نے کہا کہ ’اب آپ دیکھیں کہ ملکی اور غیر ملکی کمپنیاں معدنیات اور قدرتی وسائل نکالنے جا رہی ہیں۔ خدا کے فضل سے ان منصوبوں کے ذریعے اب ہم اپنی وزارتوں اور دیگر اداروں کے کام کے لیے آمدنی پیدا کرنے تنخواہیں ادا کرنے کے قابل ہو گئے ہیں۔‘
ان کے بقول: ’آمدنی کا ایک اور ذریعہ کسٹم ڈیوٹی کے ذریعے آتا ہے۔ یہ تمام محصولات ماضی میں غلط ہاتھوں میں جاتے تھے۔ تمام ریاستی محصولات اب مرکزی حکومت کے خزانے، مرکزی بینک اور وزارت خزانہ میں منتقل کیے جاتے ہیں۔ یہ ہم نے جو ترقی کی ہے اس کی سب سے نمایاں مثالیں تھیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’ہم تمام ممالک اور پوری عالمی برادری کے ساتھ اچھے اور دوستانہ تعلقات کی خواہش رکھتے ہیں۔ لیکن یہ بھی ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے لوگوں کو باوقار اور آرام دہ زندگی فراہم کریں۔ ہم یہاں اپنے لوگوں کی خدمت کے لیے آئے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ہم اپنے لوگوں کے لیے بہت کچھ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔‘
القاعدہ کے سرابرہ کی افغان سرزمین پر ہلاکت اور عالمی برادری سے کیے گئے وعدوں کے بارے میں پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے انس حقانی نے کہا کہ دوحہ معاہدے پر دستخط کے بعد سے انہوں نے اپنی تمام ذمہ داریاں پوری کیں ہیں۔ ایسی کوئی مثال یا واقعہ نہیں جب افغانستان کے علاقوں کو دوسرے ممالک کی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کیا گیا ہو۔
القاعدہ سربراہ کو پناہ دینے کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ’یہ امریکہ ہی تھا جو ہماری اجازت اور اطلاع دیے بغیر ہمارے علاقوں میں داخل ہوا۔ یہ امریکہ کی طرف سے واضح خلاف ورزی تھی۔ اور یہ جھوٹے دعوے ہیں، بدنیتی پر مبنی پروپیگنڈہ جس کا مقصد دنیا کی نظروں میں طالبان کی شبیہ کو داغدار کرنا ہے۔ ہم ان جھوٹے دعوؤں کو مسترد کرتے ہیں اور ان کی تردید کرتے ہیں اور میں اس بات کا اعادہ کرتا ہوں کہ ہم نے دوحہ معاہدے کے تحت اپنی کسی ذمہ داری کی خلاف ورزی نہیں کی ہے۔‘