امریکی طیاروں نے غزہ میں تقریباً 38 ہزار خوراک  کے پیکٹس گرائے

امدادی قافلے کے گرد جمع 100 سے زیادہ فلسطینیوں کی اموات کے دو دن بعد امریکی طیاروں نے غزہ میں تقریباً 38 ہزار خوراک کے پیکٹس گرائے ہیں۔

امریکی طیاروں نے دو مارچ 2024 کی صبح تقریباً 8.30 بجے 66 بنڈل غزہ پر گرائے جن میں فوج کی جانب سے فراہم کی گئی خوراک تھی (اے ایف پی)

امدادی قافلے کے گرد جمع 100 سے زیادہ فلسطینیوں کی اموات کے دو دن بعد امریکی طیاروں نے غزہ میں تقریباً 38 ہزار خوراک  کے پیکٹس گرائے ہیں۔

امریکی سینٹرل کمانڈ نے کہا کہ امریکی فضائیہ کے تین سی 130 کارگو طیاروں نے اردن کی رائل ایئر فورس کے طیاروں کے ساتھ فضائی امدادی آپریشن میں حصہ لیا۔

امریکی طیاروں نے ہفتے کی صبح تقریباً 8.30 بجے 66 بنڈل گرائے جن میں فوج کی جانب سے فراہم کی گئی خوراک تھی۔

بائیڈن انتظامیہ کے ایک سینیئر عہدیدار نے ہفتے کو صحافیوں کو بتایا کہ ’فضائی امداد امریکی حکومت کی اعلیٰ ترین سطح پر غزہ میں جان بچانے والی انسانی امداد پہنچانے اور ان بے گناہ فلسطینیوں کے مصائب کو کم کرنے کے لیے اجتماعی کوششوں کی تازہ ترین مثال ہے جن کا حماس سے کوئی تعلق نہیں۔‘  

امریکی عہدیدار نے کہا کہ ’یہ (طریقہ کار) ہمارے بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر غزہ میں جان بچانے والی امداد کو بڑھانے کے لیے ایک مستقل کوشش کا حصہ ہو گا۔‘

انہوں نے کہا کہ فضا سے امداد پہنچانے کے ذریعے ایک اجتماعی مہم کا حصہ بنتے رہیں گے تاکہ علاقے میں پہنچائی جانے والی امداد کو بڑھایا جا سکے جس میں زمینی اور اسرائیلی اور قبرصی حکام کے ساتھ مذاکرات کے تحت ممکنہ سمندری راستوں کا استعمال بھی شامل ہے۔

امریکی عہدیدار کے بقول: ’ہم زمینی اور سمندری راستوں کے استعمال پر بھی غور کر رہے ہیں اور ہم فضائی راستے بھی دیکھ رہے ہیں تاکہ امداد کے لیے ہر موقع کی تلاش کو یقینی بنایا جا سکے۔‘

ایک دوسرے عہدیدار نے کہا کہ غزہ میں امداد پہنچانے میں سب سے بڑا چیلنج چیک پوائنٹس کے ذریعے ٹرکوں کو پہنچانا نہیں بلکہ ضرورت مند لوگوں میں اسے تقسیم کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’لاقانونیت، جو ہمیشہ پس منظر میں ایک مسئلہ تھا، اب ایک بہت ہی مختلف سطح پر پہنچ چکی ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’جرائم پیشہ گروہوں‘ کی طرف سے انسانی امداد کی تجارت شروع کر دی گئی ہے جو لوٹ مار کر رہے ہیں اور پھر اسے دوبارہ فروخت کر رہے ہیں۔

عہدیدار نے مزید کہا کہ مسئلے کو حل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ مارکیٹ میں سپلائی کو ڈی مونوٹائز کرنے کے لیے تمام راستوں بشمول زمینی، سمندری اور فضائی ذرائع سے امداد کی فراوانی کر دی جائے۔

ان کے بقول: ’آپ کو جرائم یشہ گروہوں، ٹرکوں پر حملہ کرنے میں ملوث گروہوں کی حوصلہ شکنی کرنی چایئے اور مجرموں کی بجائے مایوس لوگوں پر دباؤ کم کرنا چاہیے جن  کو کھانے کی اشد ضرورت ہے۔‘

جمعرات کو امدادی قافلے تک پہنچنے کی کوشش کے دوران کم از کم 115 فلسطینیوں کی اموات اور سیکڑوں زخمی ہونے کے چند ہی دن بعد فضا سے امداد کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔

غزہ کی وزارت صحت کے مطابق یہ اموات اسرائیلی ڈیفنس فورسز کی فائرنگ سے ہوئیں۔

لیکن اسرائیل کا استدلال ہے کہ مرنے والوں میں سے بہت سے لوگ امداد حاصل کرنے کی کوشش کے دوران بھگدڑ میں مارے گئے تھے اور یہ کہ اسرائیلی فوجیوں نے انتباہی شارٹس فائر کیے جب ہجوم ’پُر خطر‘ انداز میں ان کے خلاف حرکت میں آیا۔

بائیڈن انتظامیہ کے ایک عہدیدار نے اس واقعے کو ’افسوس ناک‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ سنگین انسانی صورت حال کے ردعمل میں غزہ میں انسانی امداد کی ترسیل کو بڑھانے اور اسے برقرار رکھنے کی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔‘

امریکی حکام کا خیال ہے کہ فضا سے امداد غزہ کے لوگوں کے کچھ مصائب کو کم کر سکتی ہے لیکن طیاروں کا 24 گھنٹے امداد گرانا بھی زمینی راستوں کے استعمال کا متبادل نہیں ہو سکتا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

قومی سلامتی کے مشیر جان کربی نے جمعے کو کہا کہ فضا سے امداد تیز رفتاری سے پہنچائی جا سکتی ہے جس سے فوری طور پر کسی خاص مقام پر امداد پہنچ جاتی ہے لیکن یہ زمینی راستوں سے امداد کی ترسیل کا متبادل نہیں بلکہ ایک سپلیمنٹ ہو سکتا ہے۔

ہفتے کو امداد گرانے کے لیے استعمال ہونے والے  سی 130 کارگو طیارے 21 ٹن پیلیٹائزڈ کارگو لے جا سکتے ہیں جسے پیراشوٹ کے ذریعے زمین پر گرایا جا سکتا ہے۔ یہ طریقہ ماضی میں افغانستان، عراق اور ہیٹی کو امداد پہنچانے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

حماس کی سات اکتوبر کی کارروائی کے بعد، جب تقریباً 1,200 اسرائیلی مارے گئے تھے، اسرائیل نے بڑے پیمانے پر خوراک، پانی، ادویات اور دیگر امداد کو غزہ میں داخل ہونے سے روک رکھا ہے۔ مصر کی سرحد پر واقع رفح کراسنگ اور کرم ابو سالم کراسنگ کے ذریعے بہت کم ٹرک پٹی میں داخل ہوئے ہیں۔

اقوام متحدہ کے مطابق غزہ کے 23 لاکھ آبادی میں سے ایک چوتھائی بھوک سے مرنے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ انسانی ہمدردی کی ایجنسیوں نے کہا ہے کہ فضا سے امداد گرانا ایک آخری حربہ ہے نہ کہ ایک موثر طریقہ کار۔

غزہ کی وزارت صحت نے کہا ہے کہ اسرائیل کی جارحیت کے آغاز سے اب تک 30 ہزار سے زیادہ غزہ کے باشندے مارے جا چکے ہیں ادھر قطر میں جنگ بندی کے لیے مذاکرات جاری ہیں۔

ہفتے کی بریفنگ کے دوران ایک تیسرے سینئر امریکی عہدیدار، جو اسرائیل اور حماس کے درمیان مذاکرات میں شامل رہے ہیں، نے کہا کہ اسرائیل نے اصولی طور پر چھ ہفتے کی جنگ بندی کے معاہدے پر اتفاق کیا ہے جو آج سے ہی نافذ ہو سکتا ہے اگر حماس کمزور یرغمالیوں کے ایک متعین کیٹیگری والے افراد کو رہا کرنے پر راضی ہو جائے جن میں بیمار، زخمی، بوڑھے اور خواتین شامل ہیں۔

عہدیدار نے کہا کہ ’یہ معاہدہ جو بھی زیر غور ہے، غزہ کے لوگوں کو فوری ریلیف فراہم کرے گا اور ایسے حالات پیدا کرے گا جو فوری طور پر انسانی ہمدردی کے کام کو ممکن بنانے کے لیے درکار ہیں اور اس وقت بال حماس کے کورٹ میں ہے۔‘

جمعہ کو صدر بائیڈن سے پوچھا گیا کہ کیا اس ماہ رمضان کے آغاز تک جنگ بندی ہو جائے گی جس پر انہوں نے کہا: ’میں امید کر رہا ہوں. ہم اب بھی اس پر سخت محنت کر رہے ہیں۔ ہم ابھی تک کسی معاہدے پر نہیں پہنچے۔‘

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا