سویڈن نے باضابطہ طور پر مغربی فوجی اتحاد نیٹو میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔
سویڈن دوسری عالمی جنگ کے بعد سے کئی دہائیوں تک جاری رہنے والی غیر جانبداری ختم کرتے ہوئے روس کے یوکرین پر حملے کے بعد اتحاد کا دوسرا نیا رکن بن گیا ہے۔
سویڈن کی نیٹو شمولیت کی توثیق سے اتحاد نارڈک خطے (ڈنمارک، فن لینڈ، آئس لینڈ، ناروے اور سویڈن) میں مضبوط ہوا ہے۔ اب علاقے کے تمام ممالک نیٹو کے رکن بن چکے ہیں اور بحیرہ بالٹک ٹھیک روس کے صدر ولادی میر پوتن کی دہلیز پر ’بحیرہ نیٹو‘ بن گیا ہے۔
سویڈن کے وزیر اعظم الف کرسٹرسن اور امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن کی صدارت میں ہونے والے تقریب میں سویڈن کی جانب سے ’اتحاد میں شمولیت کی دستاویز‘ سرکاری طور پر امریکی دفتر خارجہ کے سپرد کی گئی۔
بلنکن نے گروپ میں 32 ویں ملک کی شرکت کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ سویڈن کے لیے تاریخی لمحہ ہے۔ اتحاد کے لیے تاریخی موقع ہے۔ یہ ٹرانس اٹلانٹک تعلقات کے لیے تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔‘
’ہمارا نیٹو اتحاد اب پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط اور بڑا ہے۔‘
نیٹو کے سیکریٹری جنرل جنز سٹولٹن برگ نے اسے ’تاریخی دن‘ قرار دیتے ہوئے مزید کہا کہ ’دو سو سال سے زیادہ عرصے تک عدم وابستگی کے بعد سویڈن کو اب آرٹیکل پانچ کے تحت دیا گیا تحفظ حاصل ہے جو اتحادیوں کی آزادی اور سلامتی کی حتمی ضمانت ہے۔‘
نیٹو معاہدے کی شق پانچ تمام ارکان کو پابند کرتی ہے کہ وہ کسی ایسے اتحادی کی مدد کے لیے آگے آئیں جس کا علاقہ یا سلامتی خطرے میں ہو۔ یہ شق 11 ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد امریکہ کی طرف سے صرف ایک بار فعال کی گئی۔ یہ شق اجتماعی سلامتی کی ضمانت ہے جو سویڈن نے روس کے یوکرین پر حملے کے بعد سے طلب کی۔
فن لینڈ اور سویڈن دونوں نے فروری 2022 میں روسی صدر پوتن کے یوکرین پر حملے کے حکم کے بعد دفاعی اتحاد میں شامل ہونے کے لیے درخواست دی تھی۔ فن لینڈ نے گذشتہ اپریل میں باضابطہ طور پر نیٹو میں شمولیت اختیار کی جب کہ سویڈن کی کوشش ہنگری اور ترکی رکاوٹ بن گئے۔
ترکی نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ سویڈن کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کے ارکان کو پناہ دے رہا ہے اور ان کے خلاف خاطر خواہ کارروائی نہیں کر رہا ہے۔ انقرہ، امریکہ اور یورپی یونین نے پی کے کے کو دہشت گرد گروپ قرار دے رکھا ہے۔ ترک پارلیمنٹ نے بالآخر جنوری میں سویڈن کی نیٹو میں شمولیت کی منظوری دے دی۔ جہاں تک ہنگری کا تعلق ہے اس نے اپنے اعتراضات کی وجوہات کی وضاحت کیے بغیر ٹال مٹول سے کام لیتا رہا۔
ہنگری کے صدر وکٹر اوربن یورپ میں پوتن کے قریب ترین اتحادی ہیں اور وہ یوکرین کے لیے یورپی یونین کی فنڈنگ میں رکاوٹ ہیں۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اوربن نے اپنے ملک کی فوجی اور اقتصادی برتری کو عوام کے سامنے مستحکم دکھانے کی کوشش کی۔ ہنگری نے بالآخر گذشتہ ہفتے سویڈن کے نیٹو میں شامل ہونے کے فیصلے کی توثیق کی۔
بلنکن کا کہنا تھا کہ ’اچھا ان کے لیے ہوتا ہے جو اس کے منتظر ہوں۔ اس سے بہتر مثال نہیں ہو سکتی۔‘
وائٹ ہاؤس نے کہا کہ سویڈن کی نیٹو میں شمولیت سے ’امریکہ اور ہماری اتحاد مزید محفوظ ہوں گے۔‘
وائٹ ہاؤس نے اپنے بیان میں کہا: ’ نیٹو دنیا کی تاریخ کا سب سے طاقتور دفاعی اتحاد ہے اور آج یہ اپنے شہریوں کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ 75 سال پہلے تھا جب ہمارے اتحاد کی بنیاد دوسری عالمی جنگ کے ملبے پر رکھی گئی۔‘
توقع کی جا رہی ہے کہ صدر بائیڈن، سویڈن کی نیٹو میں شمولیت کو اس بات کے ثبوت کے طور پر پیش کریں گے کہ یوکرین کے حملے کے براہ راست نتیجے کے طور پر پوتن کی اتحاد کو تقسیم اور کمزور کرنے کی کوشش ناکام ہو گئی ہے۔ وہ سویڈن کی نیٹو میں شمولیت کے فیصلے کو یوکرین کے لیے تعطل کا شکار فوجی امداد کی منظوری کے مطالبات کو تیز تر کرنے کے لیے بھی استعمال کریں گے۔ رپبلکن ارکان امداد کی منظوری سے گریز کر رہے ہیں۔
روس کے یوکرین پر حملے کو تیسرا سال شروع ہو چکا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یوکرین کو چھ سو میل طویل اگلے محاذ کے مشرقی علاقوں میں روسی پیش قدمی اور گولہ بارود کی کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اگرچہ یورپی یونین کچھ نئی فنڈنگ کے معاملے کو آگے بڑھانے پر اوربن کے اعتراضات پر قابو پانے میں کامیاب رہی ہے لیکن امریکی کانگریس اب بھی اس ضمن میں اتفاق نہیں کر سکی۔
چوں کہ واشنگٹن کیئف کو فوجی امداد دینے والا واحد سب سے بڑا ملک ہے اس لیے یوکرین کے حکام نے امریکہ پر زور دیا ہے کہ وہ جلد از جلد نئے فنڈز پر اتفاق کرے کیوں رقم نہ ملنے سے اس کا اگلا محاذ براہ راست متاثر ہو رہا ہے۔
پیر کو برسلز میں فوجی تنظیم کے صدر دفتر کے باہر سویڈن پرچم لہرایا جائے گا۔ سٹولٹن برگ نے اپنے بیان میں کہا کہ سویڈن اب نیٹو میں اپنا جائز مقام حاصل کرنے سمیت نیٹو کی پالیسیوں اور فیصلوں کی تشکیل میں برابر کا کردار ادا کرے گا۔
انہوں نے مزید کہا: ’سویڈن کی شمولیت سے نیٹو مضبوط ہوا ہے۔ سویڈن محفوظ تر اور پورا اتحاد زیادہ محفوظ ہو گیا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ سویڈن کی نیٹو میں شمولیت سے ’ظاہر ہوتا ہے کہ نیٹو کے دروازے کھلے ہیں اور ہر ملک کو اپنا راستہ منتخب کرنے کا حق ہے۔‘
سویڈن پہلے ہی نیٹو کے ساتھ فوجی مشقوں کا مزہ چکھ چکا ہے۔ نارڈک رسپانس کے نام سے حال ہی میں شمالی ناروے، سویڈن اور فن لینڈ میں اپنی نوعیت کی پہلی فوجی مشقیں کی گئیں۔ برطانیہ سمیت 13 ملکوں کے 20 ہزار سے زیادہ فوجیوں نے ان مشقوں میں حصہ لیا۔ ان مشقوں کے دورن زمینی، فضائی اور سمندری آپریشنز کیے گئے۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔
© The Independent