امیر و غریب الگ الگ دنیاؤں کے باسی بنتے جا رہے ہیں

ایک زمانے میں امیر آدمی کو بھی غریب کے علاقے میں کبھی نہ کبھی جانا پڑتا تھا، لیکن اب ایسا لگتا ہے دونوں مختلف ملکوں کے باشندے بن گئے ہیں، جن کا ایک دوسرے سے واسطہ ہی نہیں۔

اسلام آباد میں 26 جون 2016 کو غربا میں راشن تقسیم کیا جا رہا ہے (اے ایف پی)

کچھ برسوں پہلے پاکستانی پارلیمنٹ کی ایک کمیٹی کے کچھ ارکان نے جب ایک بیوروکریٹ سے یہ دریافت کیا کہ اسلام آباد ہائی وے پر بوڑھے یا معذور افراد کے لیے کوئی پل کیوں نہیں بنایا گیا، تو بیوروکریٹ نے جواب دیا کہ سٹرک بناتے وقت اس بات کا خیال ہی نہیں آیا۔

یہ حاکم طبقات اور عوام کے درمیان بڑھتی ہوئی دوری کی صرف ایک جھلک ہے۔

پاکستان میں کسی دور میں اشرافیہ سے تعلق رکھنے والوں کا واسطہ گاہے بگاہے عام لوگوں سے ہو جایا کرتا تھا۔ سرمایہ داروں یا صنعت کاروں کی ایک بڑی تعداد روزانہ اپنی فیکٹریوں کا چکر لگاتی تھی۔ انہیں مزدور رہنماؤں سے بھی ملاقاتیں کرنی پڑتی تھیں اور ان کے مسائل سے اپنے آپ کو واقف بھی رکھنا پڑتا تھا۔

جیسے جیسے جدید آلات آنے شروع ہوئے، ویسے ویسے سرمایہ داروں نے فیکٹریوں میں جانا چھوڑ دیا کیوں کہ اب وہ سی سی ٹی وی کیمروں یا موبائل پہ مختلف ایپلیکیشنز کی مدد سے یہ جان سکتے ہیں ان کی فیکٹری میں کیا ہو رہا ہے۔ لہٰذا اب انہیں روزانہ کی بنیاد پہ فیکٹری جانے کی ضرورت نہیں ہے۔

کسی دور میں امرا کے علاقوں میں چپل کی دکانیں، کپڑوں کی مارکیٹ یا جوتوں کے بازار نہیں ہوا کرتے تھے۔ سبزیاں اور پھل میں ان علاقوں میں کم ہی بکتے تھے۔ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے بہت سارے افراد ان ضروریات کے لیے کم آمدنی والے علاقوں میں آ کر خریداری کرتے تھے، جس کی وجہ سے ان کا تعلق ایک عام آدمی سے بنتا تھا۔

لیکن الٹرا ماڈرن رہائشی کالونیوں کے آنے کی وجہ سے اب تقریباً تمام امرا کے علاقوں میں بڑے بڑے شاپنگ مالز ہیں، جہاں چپل سے لے کر جوتے، کپڑے سے لے کر سبزی اور کھانے پینے کی اشیا سے لے کر مصالحہ جات سب کچھ ملتا ہے۔ اس لیے اب ان کا رخ ان علاقوں کی طرف نہیں ہوتا۔

پاکستان میں روایتی طور پر اچھے تعلیمی ادارے عیسائی مشنری تنظیموں کے کنٹرول میں تھے۔ ان سکولوں میں اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے بچوں کی ایک بڑی تعداد جاتی تھی۔ جہاں ان کا میل جول مزدور طبقات یا غریب طبقات سے تعلق رکھنے والے طالب علموں سے بھی ہوتا تھا۔

بعض معاملات میں ان میں گہری دوستی بھی ہوتی تھی اور امیر علاقوں سے تعلق رکھنے والے کچھ افراد کو ان کی غربت کا احساس بھی ہوتا تھا۔ کچھ امیر لڑکے اسی احساس کی وجہ سے انقلابی سیاست کی طرف بھی راغب ہوتے تھے۔

لیکن اب جدید ترین ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں نہ صرف یہ کہ پاکستان کے بہترین سکولوں کے کیمپس موجود ہیں بلکہ کئی ایسے سکول بھی موجود ہیں، جو بیرونی جامعات سے منسلک ہیں۔ اس لیے اب امیر علاقوں کے بچوں کا واسطہ  اشرافیہ والے علاقوں کے بچوں سے نہیں پڑتا۔

ماضی میں اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے کچھ افراد اپنے بچوں کو پنجاب، پشاور یا کراچی یونیورسٹی کے کچھ مخصوص شعبوں، جیسے کہ انگریزی ادب اور بزنس سٹڈیز میں بھیجا کرتے تھے۔ 

لیکن کیوں کہ اب اشرافیہ کے علاقے میں کئی ایسے تعلیمی ادارے موجود ہیں، جن کا الحاق امریکی یا برطانوی جامعات سے ہیں، اس لیے اب اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے یہ نوجوان ان سرکاری جامعات میں بھی کم جاتے ہیں اور امیر اور غریب کے درمیان رابطے کا جو ایک اور سلسلہ رہ گیا تھا وہ بھی اگر سرے سے ختم نہیں ہوا تو انتہائی کمزور ضرور پڑ گیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عام آدمی اور اشرافیہ کے ایک اور ملنے کی جگہ سینیما گھر ہوا کرتے تھے۔ سینیما گھروں میں طبقاتی تقسیم موجود تھی لیکن کیونکہ ان میں داخل ہونے کا دروازہ صرف ایک ہی ہوا کرتا تھا، اس لیے امیر اور غریب آدمی کا کسی نہ کسی حد تک آمنا سامنا ہو جایا کرتا تھا۔

غریب آدمی نچلے درجے کی نشستیں لیتا تھا جبکہ امیر آدمی کے لیے باکس آفس یا اعلیٰ درجے کی نشستیں ہوا کرتی تھی لیکن دونوں طبقات مل کر فلموں سے لطف اندوز ہوا کرتے تھے۔ کسی مزے دار سین پر تھرڈ کلاس کی طرف سے کوئی من چلا فقرہ چست کرتا تھا تو پورا ہال قہقہوں سے گونج جایا کرتا تھا۔

لیکن جنرل ضیا کے دور میں جہاں معاشرے کی تقسیم اور ٹوٹ پھوٹ بڑے پیمانے پر ہوئی، وہیں پاکستان کی فلم انڈسٹری بھی تباہی سے دوچار ہوئی۔ اب زیادہ تر سینیماؤں کی جگہ شاپنگ مالز اور پلازے بن گئے ہیں۔

اشرافیہ کے علاقوں میں ایسے شاپنگ مالز بھی ہیں، جہاں سنی پلیکس کی سہولیات موجود ہیں موجود ہیں لیکن وہاں ہزاروں روپے کے ٹکٹ خرید کر جانا، اور اس سے بھی مہنگے پاپ کارن یا چپس خریدنا غریب آدمی کی پہنچ سے باہر ہو گیا ہے۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عام آدمی اور اشرافیہ کے افراد میں میل ملاپ سماجی سطح پر بہت کم ہو گیا ہے۔

پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کے بعد یہ امید ہوئی تھی کہ سیاست دانوں کو اپنے ووٹروں کے پاس جانا پڑے گا، جن کی ایک بڑی تعداد غریب یا کم آمدنی والے طبقات سے ہے۔

بےنظیر بھٹو کو لیاری اور نوازشریف کو انتہائی غریب علاقوں کے دورے کرنے پڑے۔ تاہم حالیہ برسوں میں ہونے والے انتخابات سے یہ بات واضح ہوتی جا رہی ہے کہ اب انتخابات جیتنے کے لیے عوام سے رابطہ کرنے کے بجائے طاقتور حلقوں سے تعلقات رکھنا زیادہ سود مند ہے۔

اس لیے بہت سارے سیاستدان عوام سے لا تعلق رہنے کو ہی ترجیح دیتے ہیں اور ان کی جیت کا انحصار غیر مری قوتوں پر ہوتا ہے۔

2024 کے ہونے والے انتخابات میں گو اس خیال کو کسی حد تک جھٹکا لگا ہے لیکن کئی ایسے امیدوار بھی اپنی نشستیں جیتنے میں کامیاب ہو گئے جنہوں نے پانچ سالوں میں عوام سے بالکل کوئی رابطہ نہیں رکھا اور اپنے آبائی علاقوں کا بھی رخ کم کیا۔ یوں عام  اور اشرافیہ کے درمیان سماجی سطح پر جو دوری تھی وہ اب سیاسی طور پر بھی ابھر رہی ہے۔

اگر سیاسی قوتوں نے اس کا ادراک نہیں کیا، تو یہ سیاست اور معاشرے دونوں ہی کے لیے بہت خطرناک ہو گا۔ لہٰذا سیاسی قائدین کو ایسے پروجیکٹس لانے چاہییں جن سے معاشرے کے مختلف طبقات کو ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھنے کا موقع ملے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ