شادیوں میں ولیمہ دینے کی روایت تو تقریباً ہر جگہ موجود ہے تاہم خیبر پختونخوا کے ضلع لکی مروت میں دو بھائیوں کی شادیوں میں ’انوکھا‘ طریقہ اپنایا گیا جس میں رشتہ اداروں اور احباب کو کھانے کھلانے کے بجائے سینکڑوں غربا میں فوڈ پیکجز تقسیم کیے گئے۔
لکی مروت کے علاقے سرائے نورنگ میں دو بھائیوں کی ایک ہی روز ہونے والی شادیوں میں غربا کو بلا کر کھانے کے پیکٹ تقسیم کیے گئے۔
تقریب میں علاقہ عمائدین سمیت ضلعی ڈپٹی کمشنر نے بھی حوصلہ افزائی کے لیے شرکت کی۔
دونوں بھائیوں کے چچا عزیز اللہ خان، جو لکی مروت کے نورنگ تحصیل کے ناظم بھی ہیں، نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مہنگائی کے اس دور میں ہر طبقہ متاثر ہوا ہے اور ہمیں کم کمائی والے خاندانوں کی زیادہ سے زیادہ مدد کرنا چاہیے۔
انہوں نے بتایا کہ ہوشربا مہنگائی کو مد نظر رکھتے وہئے ان کے خاندان میں فیصلہ ہوا کہ ولیمے میں علاقے کے غربا کی مدد کی جائے اور اسی مد میں 600 خاندانوں میں فوڈ پیکجز تقسیم کیے گئے۔
انہوں نے بتایا کہ دونوں شادیوں کے دعوت نامے کے طور پر شادی کارڈ چھپوائے گئے تھے، لیکن پورے خاندان نے علاقے کی غربت اور پسماندگی کو مد نظر رکھتے ہوئے غریبوں کو کھانا کھلانے کا فیصلہ کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’بڑے بڑے شامیانے لگا کر مالدار لوگوں کو بلا کر آخر میں یہ کہ بہت اچھا ولیمہ تھا، کے بجائے ہمیں ہتھ گاڑی چلانے والے، چھابڑی فروش یا اس معاشرے کا وہ طبقہ جو موجودہ مہنگائی سے پریشان ہے، کی پر ممکن مدد کرنا چاہیے۔‘
اس موقع پر ڈپٹی کمشنر عبدالہادی نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ وہ حکومتی سطح پر اس روایت کو سپورٹ کرتے ہیں۔
پیکج لینے والے ایک ایک دیہاڑی دار یاسر عرفات نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ میں بنوں میں ایک دکاندار میں بطور سیلز مین کام کرتا ہوں اور مجھے دن کے پانچ سو روپے ملتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس مہنگائی میں ایسا انوکھا اقدام غریبوں کے لیے کسی معجزے سے کم نہیں کیونکہ جو راشن مل گیا ہے وہ رمضان کے مہینے کا کام کر جائے گا جبکہ ایک مہینے کا راشن پورا کرنے کے لیے انہیں بہت محنت کرنا پڑتی۔
یاسر عرفات کا کہنا تھا: ’آج کل پانچ سو سے ایک ہزار روپے دیھاڑی دار مزدوری ہے جس میں کچھ بھی خریدنا ممکن نہیں تو آئندہ بھی ولیموں پر لاکھوں خرچ کرنے کے بجائے ایسے ہی روایت ہونا چاہیے جس سے غریبوں کو فائدہ ہوں۔‘