جرمن وزارتِ خارجہ کے اشتراک سے میڈیا ٹریننگ اینڈ ریسرچ سینٹر کابل کے خیر سگالی پروگرام کے تحت اسلام آباد آنے والے افغان نوجوان پاکستان کے حوالے سے کئی غلط فہمیاں دل میں لے کر آئے ہیں۔ اس کا ذمہ دار وہ دونوں اطراف کے میڈیا کو ٹھہراتے ہیں۔ اُن کے خیال میں پاکستان چاہتا ہے کہ افغانستان میں پاکستان کی مرضی کی حکومت آئے۔
انڈپینڈنٹ اردو نے جب اس سلسلے میں ان افغان نوجوانوں سے بات کی تو ان میں سے ایک سکالر عصمت اللہ جعفری نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے بتایا: ’امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات ناکام ہونے کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ درحقیقت افغانستان سے مکمل انخلا نہیں چاہتا۔ وہ افغانستان سے انخلا کے بعد بھی اپنی موجودگی چاہتا ہے جبکہ طالبان کو امریکہ کی مانیٹرنگ بھی منظور نہیں۔‘
جب اُن سے سوال کیا گیا کہ ان کے خیال میں امریکہ افغانستان سے مکمل انخلا کیوں نہیں کرے گا؟ عصمت اللہ نے جواب دیا: ’امریکہ افغانستان میں اپنی موجودگی رکھ کر وہاں سے ایران اور پاکستان کی مانیٹرنگ کرتا ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ بنیادی طور پر امریکہ اس خطے سے دور نہیں جا سکتا۔
عصمت اللہ نے مزید کہا کہ ’بطور افغان شہری اور ریسرچ سکالر وہ سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں صرف طالبان نہیں جو حالات میں بگاڑ کے ذمہ دار ہیں بلکہ افغانستان میں 23 ایسے دھڑے موجود ہیں جو مختلف واقعات میں ملوث ہوتے ہیں اور طالبان اُن میں سے صرف ایک دھڑا ہے۔ امریکہ صرف طالبان سے مذاکرات کر رہا ہے، اس لیے اگر مذاکرات کامیاب ہو بھی جاتے ہیں تو باقی کے 22 دھڑے افغانستان میں امن قائم نہیں ہونے دیں گے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’افغان عوام سمجھتے ہیں کہ پاکستان افغانستان میں امن چاہتا ہے لیکن کردار کم ادا کرتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ بھارت افغانستان کی حکومت کو سپورٹ کرتا ہے اور پاکستان طالبان کی حمایت کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے ساتھ افغانستان حکومت کے تعلقات اتار چڑھاؤ کا شکار ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
افغانستان سے آئے ہوئے یونیورسٹی لیکچرر گل احمد حامدی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’افغان عوام سمجھتے ہیں کہ پاکستانی ہمارے دشمن ہیں اور پاکستان میں یہی تاثر افغانستان کے حوالے سے بھی ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ ’افغانستان کی حکومت اور افغان میڈیا نے پاکستان کے بارے میں جو منفی تاثر قائم کیا ہے، افغان عوام ویسا ہی سوچتے ہیں۔ عوام یہ بھی سوچتے تھے کہ پاکستان افغانستان کی بحالی کے لیے کام کیوں نہیں کرتا لیکن حال ہی میں پاکستان کی جانب سے کابل میں جناح ہسپتال کی تعمیر کے بعد افغان عوام پاکستان سے خوش ہو گئے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہم نے آنکھیں کھولیں تو بم دھماکے ہی دیکھے ہیں، اب ہم امن چاہتے ہیں۔‘
پاکستان سے کابل کا دورہ کرنے والے امن کے سفیر اور صحافی داؤد خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو اپنے دورہ افغانستان کے حوالے سے بتایا کہ ’وہ پہلی بار کابل گئے تھے تو محسوس ہوا کہ وہاں اب بھی نادیدہ جنگ جاری ہے اور عوام میں ایک غیر محسوس قسم کا خوف موجود ہے۔‘
انہوں نے کہا: ’افغانستان میں پاکستانی کم لیکن بھارتی شہری زیادہ نظر آئیں گے۔ پاکستان کا بیانیہ افغانستان میں نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ پاکستانی چینلز افغانستان میں دیکھے ہی نہیں جاتے جبکہ بھارتی نیوز چینل افغانستان میں مانیٹر بھی ہوتے ہیں اور دکھائے بھی جاتے ہیں۔‘ داؤد خان نے کہا کہ اس سلسلے میں کابل میں موجود پاکستانی مشن کو میڈیا پر کام کرنا چاہیے۔
پاکستان کی جانب سے افغانستان جانے والی امن کی سفیر صحافی صوفیہ صدیقی نے کہا کہ ’افغانستان میں پاکستان کی سرمایہ کاری کم وبیش بھارت جتنی ہے لیکن ہم اسے اچھے انداز میں پروجیکٹ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا: ’میرا خیال ہے کہ پاکستان کے حوالے سے ہمیں افغان عوام کے تمام ابہام یقین میں بدل جانے سے پہلے ختم کرنے کے لیے اقدامات کرنے چاہییں۔‘
امن سفیروں کے پروگرام مینیجر محمد عاطف، جن کا تعلق افغانستان سے ہے، نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بنیادی طور پر یہ پروگرام کابل سے شروع ہوا جس کا اشتراک میڈیا ٹریننگ اینڈ ریسرچ سینٹر سے ہے۔ اس پروگرام کی مالی معاونت جرمن وزارت خارجہ کر رہی ہے تاکہ افغانستان اور پاکستان کے نوجوان آپس میں ملیں اور دونوں ممالک کے عوامی سطح پر مثبت رابطے بحال ہوں۔