امریکہ کا کہنا ہے کہ ایوان نمائندگان میں پاکستان کے حالیہ عام انتخابات کی شفافیت اور جمہوریت پر ہونے والی سماعت کانگریس کی معمول کی کارروائی کا حصہ ہے، تاہم سفارت کار ڈونلڈ لو کو پاکستان تحریک انصاف کے بعض حامیوں کی جانب سے دھمکیاں سنجیدہ معاملہ ہے۔
پاکستانی انتخابات کی شفافیت پر اگلے ہفتے امریکی کانگریس کی ایک ذیلی کمیٹی میں سماعت طے ہے جس میں امریکی محکمہ خارجہ کے بیورو برائے وسطی ایشیا سے وابستہ اسسٹنٹ سیکریٹری آف سٹیٹ ڈونلڈ لو کو بطور گواہ کے پیش ہونے کا کہا گیا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان جب وزیراعظم تھے تو ان کی طرف سے یہ الزام لگایا گیا تھا کہ ان کی حکومت کے خاتمے کے لیے کی گئی مبینہ مداخلت میں سے ایک کردار ڈونلڈ لو کا بھی تھا۔
عمران خان اور ان کے حامی ڈونلڈ لو پر 2022 میں اپنی حکومت کو عدم استحکام کا شکار کرنے کا الزام عائد کرتے ہیں اور ان کا موقف ہے کہ اس حوالے سے ان کی پاکستانی سفیر اسد مجید سے مارچ 2022 میں ملاقات ہوئی تھی جس کا ذکر اسد مجید نے واشنگٹن سے اسلام آباد کو بھیجے گئے سائفر میں بھی کیا تھا۔
اسی تناظر میں ترجمان محکمہ خارجہ سے جب پوچھا گیا کہ ڈونلڈ لو کو تحریک انصاف کے بعض حامیوں کی جانب سے دھمکی آمیز پیغام بھی بھیجے گئے اور چونکہ کانگریس میں سماعت (اوپن) یعنی سب کے لیے کھلی ہوگی اور اس بات کا امکان ہے کہ پی ٹی آئی کے حامی بھی وہاں ہوں تو میتھیو ملر نے کہا کہ اسسٹنٹ سیکریٹری ڈونلڈ لو کو دھمکیاں ملنے کا معاملہ سنجیدہ ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا تھا کہ ’بلاشبہ، ہم امریکی عہدیداروں کے لیے کسی بھی دھمکی کو سنجیدگی سے لیتے ہیں اور اپنے سفارت کاروں کی حفاظت اور سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کی کسی بھی کوشش کی مذمت کرتے ہیں۔‘
پی ٹی آئی کے حامیوں کی جانب سے ڈونلڈ لو پر لگائے گئے الزامات کے حوالے سے میتھیو ملر نے کہا: ’یہ الزام غلط ہے۔ یہ ہمیشہ سے غلط تھے۔ آپ مجھے کئی بار کہتے ہوئے سن چکے ہیں۔ ایک سے زیادہ بار۔ شاید 10 سے زیادہ بار۔‘
پاکستان کے حالیہ انتخابات سے متعلق آئندہ ہفتے ہونے والی سماعت کے بارے میں سوال پر میتھیو ملر نے کہا کہ ’امریکی کانگریس کمیٹی میں سماعت کے حوالے سے سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے افسران وقتاً فوقتاً کانگریس کے سامنے گواہی دیتے رہتے ہیں۔‘
میتھیو ملر کے مطابق: ’ہم اسے اپنے کام کے ایک اہم حصے کے طور پر دیکھتے ہیں تاکہ کانگریس کو پالیسی سازی اور نگرانی کے نقطہ نظر سے اپنا کام کرنے میں مدد ملے۔ اس لیے ہم ہمیشہ کانگریس کے ساتھ ہونے والی غیر رسمی، رسمی بات چیت اور یقیناً ہمارے حکام کے موقف کے منتظر رہتے ہیں۔‘
امریکی ایوان نمائندگان کی ذیلی کمیٹی برائے مشرق وسطیٰ، وسطی ایشیا اور شمالی افریقی امور میں پاکستانی انتخابات اور جمہوریت پر سماعت 20 مارچ کو مقرر کی گئی ہے۔
اس حوالے سے جاری کیے گئے نوٹس میں بتایا گیا کہ امریکی محکمہ خارجہ میں اسسٹنٹ سیکرٹری ڈونلڈ لو کو بھی طلب کیا گیا ہے، جہاں وہ اپنا موقف دیں گے۔
سابق پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے 27 مارچ 2022 کو اپنی حکومت کے خاتمے سے قبل اسلام آباد میں ایک جلسہ عام میں ایک خط (سائفر) لہراتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ یہ ایک غیر ملکی حکومت کی طرف سے لکھا گیا ہے جس میں ان کی حکومت ختم کرنے کی منصوبہ بندی ظاہر ہوتی ہے۔
سائفر ایک سفارتی سرکاری دستاویز کے طور پر جانا جاتا ہے اور عمران خان کے خلاف اسی بنیاد پر کیس بھی بنایا گیا تھا کہ انہوں نے 2022 میں امریکہ میں اس وقت تعینات پاکستان کے سابق سفارت کار اسد مجید کی طرف سے بھیجے گئے سفارتی مراسلے کے مواد کو افشا کیا۔
واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان سفارتی خط و کتابت یعنی سائفر سے متعلق عمران خان کا کہنا تھا کہ اپریل 2022 میں ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد اور بطور وزیراعظم بے دخلی امریکی سازش کا حصہ تھی۔
امریکی حکام اس کی بارہا تردید کر چکے ہیں جبکہ پاکستانی حکومت بھی کہہ چکی ہے کہ ایسے شواہد نہیں ملے ہیں کہ پاکستان کے خلاف امریکہ نے کسی طرح کی سازش کی ہو۔
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے آٹھ فروری کے عام انتخابات کی شفافیت پر سوالات اٹھاتے ہوئے نتائج کے خلاف احتجاج کیا گیا ہے۔
امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین نے پاکستان میں عام انتخابات کے دوران ’لیول پلیئنگ فیلڈ، شمولیت اور شفافیت کے فقدان‘ پر تحفظات کا اظہار بھی کیا تھا، جسے اسلام آباد کی جانب سے مسترد کیا جا چکا ہے۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔