منفرد انداز کی ماڈل اور اداکارہ صحیفہ جبار خٹک کو اگرچہ شوبز میں کافی عرصہ ہوگیا ہے لیکن انہوں نے اس دوران بہت کم ڈراموں میں کام کیا ہے۔ ان کا آخری ڈراما چار سال پہلے نشر ہوا تھا، تاہم رواں ماہ صحیفہ جبار خٹک ایک کامیڈی ڈرامے ’رفتہ رفتہ‘ کے ساتھ آ رہی ہیں۔
گرین انٹرٹینمنٹ پر نشر ہونے والے اس ڈرامے میں ان کے ساتھ زاویار اعجاز اور حنا دل پذیر اہم کرداروں میں نظر آ رہی ہیں۔
یہ ڈراما محدود اقساط پر مشتمل ہے اور یہ پہلی بار ہے کہ صحیفہ کامیڈی ڈرامے میں کام کر رہی ہیں۔
کراچی کے ایک قدیم علاقے کی تاریخی حویلی میں شوٹنگ کے دوران انڈپینڈنٹ اردو کے قارئین کے لیے ہم نے صحیفہ سے وقت لیا اور کردار کے علاوہ کراچی کے کھانوں پر بھی بات کی۔
چار سال بعد واپسی اور وہ بھی ایک کامیڈی کردار کے ساتھ، اس بارے میں صحیفہ جبار خٹک نے بتایا کہ ’میں نے اس سے پہلے کبھی کامیڈی کی نہیں ہے۔‘
بقول صحیفہ اب تک انہوں نے کافی رونے دھونے والے کردار کیے تھے، جس پر ان کے والدین بھی تنگ تھے کہ کیا ہر ڈرامے میں رونا لگا رہتا ہے، اس لیے وہ یہ کامیڈی کردار کرنا چاہتی تھیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
صحیفہ نے بتایا کہ ’اس ڈرامے میں حنا دل پذیر بھی ہیں، جن کے ساتھ کام کرنے کی میری بہت خواہش تھی کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ میں ان سے بہت سیکھوں گی، اس لیے ’رفتہ رفتہ‘ کے لیے ہامی بھر لی، ویسے بھی رمضان میں عوام کافی خوش رہتی ہے تو سوچا کرلینا چاہیے۔‘
ڈرامے ’رفتہ رفتہ‘ میں اپنے کردار کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ وہ اس کردار سے خود کو قریب سمجھتی ہیں کہ یہ ایک خودمختار لڑکی کا کردار ہے۔ ’یہ کردار لوگوں سے کرایہ وصول کرتا ہے، اپنی زندگی کے چھوٹے چھوٹے معاملات نمٹاتا ہے اور ذمہ دار بھی ہے، پھر اس کا حمزہ کے ساتھ جو تعلق ہے وہ بہت دلچسپ ہے، اس لیے وہ کہیں کہیں اس کردار کو خود سے قریب سمجھتی ہیں۔‘
یہ رمضان میں نشر ہونے والا ایک مختصر سا ڈراما ہے، جو چھ سے آٹھ اقساط تک ہی محدود ہو گا۔
اس حوالے سے صحیفہ نے بتایا کہ چونکہ وہ طویل عرصے کے بعد واپس آرہی تھیں، اس لیے وہ چاہتی تھیں کہ ایک مختصر کام کرکے دیکھ لیا جائے، لیکن اس کے بعد وہ ایک بڑا ڈراما بھی سائن کرچکی ہیں جس کی تیاری وہ لاہور جا کر کریں گی اور جس کے بعد وہ کراچی آکر اس کی عکس بندی کریں گی۔
اپنے اس کردار کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’وہ ہنسنے اور رونے والا ہے یعنی دونوں طرح کا کام ہے۔‘
صحیفہ نے بتایا کہ وہ زندگی میں کچھ بڑا کام کرنا چاہتی ہیں، پیسہ اور شہرت تو مل ہی جاتی ہے اور ملک بھی ہے لیکن اس کے ساتھ زندگی میں کیا کرنا ہے یہ اہم ہے، وہ اسے بامقصد بنانے کے لیے پر امید ہیں۔
پاکستانی ڈراموں میں خواتین کے کردار کی مناسبت سے ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ہر انسان پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی کہانی سے کیا اخذ کرتا ہے اور کیا نہیں۔‘
جہاں تک موسیقی کی بات ہے صحیفہ کا کہنا ہے کہ وہ گلوکاری کی جانب کبھی جا ہی نہیں سکتیں کیونکہ ان میں یہ صلاحیت موجود نہیں ہے، البتہ فلموں میں اداکاری کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ وہ اس کے لیے تیار ہیں لیکن ابھی کوئی فلم ہے نہیں۔
’کافی عرصہ پہلے مجھے فلموں میں کام کی پیشکش ہوئی تھی لیکن وہ جس طرح کے کردار تھے وہ نہیں کرنا چاہتی تھیں اور چونکہ میرا پس منظر ماڈلنگ کا ہے تو آئٹم نمبر کرنے کی پیشکش ہوئی جسے میں نہیں کرنا چاہتی، اس لیے ان دونوں فلموں کو میں نے منع کر دیا۔‘
آخر میں صحیفہ نے بتایا کہ انہیں ہنسی کا دورہ پڑ جاتا ہے، اگر وہ دورہ پڑ جائے تو آدھا پونا گھنٹہ لگ جاتا ہے، اس دوران کام بھی روکنا پڑتا ہے اور وہ اسے اب تک قابو نہیں کرسکی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ انہیں ان کے دوست مختلف ناموں سے پکارتے ہیں، صحیفہ کوئی نہیں کہتا۔
انٹرویو کے دوران صحیفہ نے اپنے پسندیدہ کھانوں کے حوالے سے بھی بات کی اور بتایا کہ انہیں ’کراچی کے سارے کھانے بہت پسند ہیں، کراچی کی چاٹ، بن کباب کے علاوہ بریانی بہت اچھی ہے، لاہوریوں کو بریانی بنانا آتی ہی نہیں ہے، جبکہ کراچی کی نہاری خصوصاً زاہد کی نہاری کی بات ہی الگ ہے۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔