کیا کوئی اور ترجمان وزیراعلیٰ پنجاب بنایا جائے گا؟

پنجاب میں مستقل ترجمان اور حکومتی اقدامات موثر اندازمیں بیان کرنے کے لیے ایک قابل شخصیت کی تلاش بدستور جاری ہے۔

پنجاب کے  دو سابق وزرائے اطلاعات  صمصام بخاری (دائیں) اور  فیاض الحسن چوہان (درمیان) اور سابق ترجمان وزیراعلیٰ  شہباز گِل (بائیں)

پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت تعلقات عامہ کے عہدے کے حوالے سے شروع سے ہی مشکلات کا شکار ہے اور حکومت کی ترجمانی کرنے والوں کو غیر ضروری بیان بازی یا اختیارات سے تجاوز پر عہدوں سے ہٹایا جاتا رہا ہے۔

سب سے پہلے صوبائی وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان کو متنازع بیان بازی پر عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔ ان کے بعد اس عہدے پر سابق وزیر مملکت برائے اطلاعات صمصام بخاری کو تعینات کیا گیا۔ وہ بھی چند ماہ بعد پارٹی موقف موثر انداز میں پیش نہ کرنے پر عہدے سے ہٹا دیے گئے۔ ان کے بعد صوبائی وزیر میاں اسلم اقبال کو صوبائی وزیر اطلاعات کا اضافی چارج دے کر کام چلایا جا رہا ہے۔

اسی دوران وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا بیانیہ میڈیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے بنائے گئے ترجمان شہباز گِل کو بھی پارٹی پالیسی کے خلاف پریس کانفرنس کرنے اور اختیارات سے تجاوز کرنے پر چند روز پہلے ہٹا دیا گیا۔

پی ٹی آئی پنجاب کے بعض کارکنوں کی جانب سے جب عائشہ نذیر جٹ کو ترجمان وزیراعلیٰ پنجاب کے عہدے پر تعینات کرنے کے فیصلے کی مہم چلی تو ان کے خلاف پی ٹی آئی خواتین ونگ کی کئی رہنما اور پرانے کارکن میدان میں آگئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پی ٹی آئی رہنما فاطمہ عثمان اور ثمینہ مانو نے قیادت کے سامنے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا اور سوشل میڈیا پر مہم چلائی کہ وہاڑی میں عام انتخابات کے دوران عائشہ نذیر جٹ اور ان کے والد نذیر جٹ نے ٹکٹ نہ ملنے پر پی ٹی آئی امیدواروں کے خلاف آزاد حیثیت میں الیکشن لڑا۔ ان کی وجہ سے لیگی امیدوار کامیاب ہوگئے اور پارٹی کے لیے ان کی کوئی خاص خدمات بھی نہیں۔ نہ کبھی وہ کسی جلسے میں آئیں اور نہ دھرنے میں شرکت کی۔

پی ٹی آئی کارکنوں نے مہم کے دوران یہ تشہیر بھی کی کہ عائشہ نذیر جٹ کو ان کے والد کی جانب سے اثرورسوخ استعمال کرکے سعودی عرب کے سفیر کی سفارش پر ترجمان وزیراعلیٰ پنجاب کے اہم عہدے پر تعیناتی کا فیصلہ کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے اس عہدے پر میرٹ کے خلاف تعیناتی پر احتجاج کی بھی دھمکی دی۔ بعض کارکنوں کی جانب سے پی ٹی آئی پنجاب کی سابق میڈیا سیل کی انچارج ایم پی اے عائشہ چوہدری کو بھی ترجمان وزیراعلیٰ پنجاب بنانے کی مہم شروع کی گئی ہے جبکہ ذرائع کے مطابق شوکت بسرا بھی اس عہدے پر تعیناتی کے لیے گورنر ہاؤس پنجاب میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔

حکومت پنجاب کی حکمت عملی

پنجاب میں مستقل ترجمان اور حکومتی اقدامات موثر اندازمیں بیان کرنے کے لیے ایک قابل شخصیت کی تلاش جاری ہے۔ بعض حلقوں کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار بہتر انداز میں میڈیا کا سامنا نہیں کرسکتے اور نہ ہی سوشل میڈیا پر کوئی بھی حکومتی عہدیدار اتنا موثر ہے جتنے سابق ترجمان شہباز گِل تھے۔ وہ صوبے میں کسی بھی شہر سے ہونے والے کسی بھی واقعے پر فوراً متعلقہ حکام سے رابطہ کرکے انہیں ایکشن لینے پر مجبور کرتے تھے۔ وہ اپوزیشن کی تنقید پر بھی حقائق کے ساتھ حکومت پنجاب کا واضح موقف بیان کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ اس لیے اس عہدے پر ان کی طرح کسی ایکٹو شخصیت کو ہی تعینات کرنا پڑے گا۔ جو کسی امتحان سے کم نہیں، کیوں کہ پہلے بھی کئی رہنماؤں کو آزمایا جا چکا ہے۔

صوبائی وزیر ڈاکٹر اختر ملک کے مطابق حکومت ترجمان وزیراعلیٰ کا عہدہ ختم کرکے مستقل صوبائی وزیر اطلاعات و نشریات کی تعیناتی کے لیے حکمت عملی بنا رہی ہے، تاہم حتمی فیصلہ وزیراعلیٰ پنجاب کے عمرہ کی ادائیگی کے بعد وطن واپسی پر کیا جائے گا۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب میں ایسے رکن اسمبلی کی تلاش جاری ہے جو حکومت کا اپوزیشن کے مقابلے میں موثر دفاع کرسکے اور حکومتی اقدامات کو عوام تک پہنچانے میں تجربہ رکھتا ہو تاکہ ایک ہی شعبے میں اختیارات کے ٹکراؤ سے بچا جائے۔ انہوں نے بتایا کہ عین ممکن ہے کہ ڈاکٹر شہباز گِل کی جگہ اب کسی کو بھی تعینات نہ کیا جائے بلکہ وزیرِ اطلاعات کے ذریعے ہی پنجاب حکومت کی ترجمانی کی جائے۔  

انہوں نے بتایا کہ تمام سیٹ اَپ پہلے سے ہی موجود ہے اور اب نئے ترجمان کی نشست پر تقرری کے بہت سے خواہش مند پارٹی قیادت پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان