سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے بدھ کو بحریہ ٹاون اور ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) سے زرعی زمین کو کمرشل میں بدلنے پر جواب طلب کر لیا اور کہا کہ متاثرین کو مارکیٹ ویلیو کے ہی پلاٹس دیے جائیں۔
سپریم کورٹ میں آج ریونیو ایمپلائیز کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی کی 2880 کنال اراضی بحریہ ٹاؤن میں منتقلی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔
چیف جسٹس فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی جس میں ریمارکس دیے کہ ’یہ ریاست کی ذمہ داری ہے زرعی زمین بچائے، سوسائٹی میں صرف سرمایہ کاری ہوتی ہے زمین پڑی رہتی ہے، جن کو حقیقت میں گھر کی ضرورت ہوتی ہے ان کی پہنچ سے ہی یہ زمین باہر ہو جاتی ہے۔‘
عدالت نے حکم جاری کرتے ہوئے فریقین کو آپس میں بیٹھ کر متاثرین کا ازالہ کرنے کی راہ نکالنے کا وقت دے دیا۔ چیف جسٹس نے کیس کا حکمنامہ لکھوایا کہ ’بحریہ ٹاون میں کوآپریٹو سوسائٹی کے انضمام کا معاہدہ نافہم دکھائی دیا۔‘
بحریہ ٹاون کے وکیل نے کہا وہ متاثرین کے تحفظات دور کرنے کو تیار ہیں، جس پر جسٹس عرفان سعادت نے کہا کہ ’متاثرین کو مارکیٹ ویلیو کے برابر والے ہی متبادل پلاٹس دیجیے گا، بی ایم ڈبلیو کو کلٹس سے نہ ملا دیجیے گا۔‘
وکیل بحریہ ٹاؤن نے عدالت کو بتایا کہ ’سوسائٹی 1989 میں وجود میں آئی، 2005 میں سوسائٹی ضم ہوئی، 16 کروڑ میں 2882 کنال زمین خریدی گئی، 2833 کنال زمین بحریہ ٹاؤن کو ٹرانسفر ہوئی، زمین مزید آگے ڈی ایچ اے کو ٹرانسفر ہوئی۔‘
چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ ’کیا ریونیو کوآپریٹو سوسائٹی کو بند کرتے وقت اشتہار دیا گیا؟ کیا بولی مانگی گئی کہ اس سوسائٹی کے لیے بلڈرز سامنے آئیں؟ آپ نے خود انتخاب کرلیا کہ بحریہ ٹاون سے ہی معاہدہ کرنا ہے؟ بس حکم آ گیا تھا وزیراعلیٰ کے دربار سے کہ معاہدہ کر لو، ایک محاورہ چلتا ہے پہیے لگانے والا، آج اس کی عکاسی نظر آرہی ہے، اس معاملے میں تو شاید جیٹ انجن لگایا گیا، یہ تو فوری طور پر ہی معاہدہ ہو گیا۔‘
اس پر وکیل بحریہ ٹاؤن حسن رضا پاشا نے بتایا کہ ’2004 سے یہ مراحل چل رہے تھے۔‘
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’انتخاب بحریہ ٹاون کا پہلے ہوچکا تھا، مراحل تو بعد میں آپ نے فٹ کیے، زرعی زمینوں پر ہر جگہ غیرقانونی ہاوسنگ سوسائٹیاں بنائی جا رہی ہیں، ڈی ایچ اے اوربحریہ ٹاون کیسے زرعی زمین کو کمرشل پلاٹ بنا کر فروخت کرسکتے ہیں؟ کیا ڈی ایچ اے اوربحریہ ٹاؤن قانون سے بالاتر ہیں یا خود قانون بناتے ہیں؟ پورے پاکستان کی تباہی کر رہے ہیں، لوگ کھائیں گے کیا؟‘
انہوں نے کہا کہ ’جو زمین ڈی ایچ اے نے لی کیا اس پر زراعت نہیں ہو رہی تھی؟ ہمارے ادارے کی بھی کوئی بین الاقوامی ریٹنگ نہیں، ہم ہی اسے بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، تین ہزار چارسوکنال زمین لے لی اور ایک روپیہ ٹیکس نہیں دیا، کیا ڈی ایچ اے کے اکاؤنٹس کا سرکاری آڈٹ ہوتا ہے؟‘
وکیل ڈی ایچ اے نے کہا کہ ’نہیں سر ہمارا اپنا آڈٹ ہوتا ہے۔‘
چیف جسٹس نے وکیل سے کہا کہ ’آپ سیدھا لکھوا لیتے ڈی ایچ اے قانون سے بالاتر ہے، مشرف صاحب اس وقت صدر تھے ایک اور قانون جاری کروا لیتے۔‘
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’کیا آپ نے آج کا اخبارپڑھا کہ دنیا میں پاکستان دوسرا ماحولیاتی طور پر آلودہ ملک ہے، پورے پاکستان کو ایک ہاوسنگ سوسائٹی بنا دو، نہ ملک میں پیٹرول ہے نا گیہوں ہے، نہ چاول رہے گا، سب کچھ درآمد کرلو بس یہ منصوبہ بندی ہے۔‘
چیف جسٹس قاضی فائزعیسی نے کہا کہ ’ان طاقتورلوگوں کو دیکھیں، 3400 کنال پرایک روپیہ ٹیکس نہیں دیا، کیا ڈی ایچ اے پر ٹیکس لاگو نہیں ہوتا؟‘
وکیل ڈی ایچ اے نے جواب دیا کہ ’ڈی ایچ اے تمام ٹیکسز ادا کرتا ہے۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’اس اراضی پر تو کوئی ٹیکس نہیں دیا، جنرل مشرف سے ایک اور آرڈیننس نکلوا لیتے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جسٹس عرفان سعادت نے استفسار کیا کہ ’بحریہ ٹاؤن نے کوآپریٹو سوسائٹی سے زمین خرید کر ڈی ایچ اے کوفروخت کی، ڈی ایچ اے نے اس زمین پرعسکری 14 بنا دیا، ڈی ایچ اے ہاوسنگ اتھارٹی شہدا کے لیے بنائی گئی تھی، کیا ڈی ایچ اے صرف شہدا کے لیے کام کر رہا ہے؟ کیا یہ درست ہے؟‘
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے پوچھا کہ ڈی ایچ اے کی قانونی حیثیت کیا ہے؟
ڈی ایچ اے کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ’ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی 2005 میں صدارتی آرڈر کے تحت قائم ہوئی، ڈی ایچ اے شہدا کے ورثا اورجنگ میں زخمیوں کو پلاٹس دیتا ہے۔ اس منصوبے میں کمرشل پلاٹس بھی ہوتے ہیں۔‘
چیف جسٹس قاضی فائزعیسی نے یہ سن کر ریمارکس دیے کہ ’پیسے کمانے ہیں تو کمائیں، شہیدوں کے نام مت لیں، سیدھا سادا دھندا کر رہے ہیں، پیسہ کمانا ہے تو کمائیں، شہیدوں کو بیچ میں مت لائیں۔
’شہدا کے نام لے کر تذلیل نہ کریں، آپ ان کی عزت نہ کریں ہم شہدا کی عزت کریں گے، شہدا کا نام لے کر کتنا نکالیں گے، یہ گیم ہم نے بہت بار دیکھا ہے، وزیراعلیٰ کون ہوتا ہے زمین الاٹ کرنے والا؟ کیا وزیراعلی کا اختیار ہے؟ ایسٹ انڈیا کمپنی نے ایسا نہیں کیا جیسا وزیراعلیٰ کر رہے ہیں۔ یہ ڈیل خفیہ کیوں ہوئی؟‘
وکیل ڈی ایچ اے نے جواب دیا کہ ’ڈیل خفیہ نہیں تھی۔‘
اس پر چیف جسٹس قاضی فائزعیسی نے کہا کہ ’پھر مجھے اس کی کوئی اخباری خبر دکھا دیں، لوگوں کا دکھ نہیں، پیسے کا دکھ ہے، اپنی جیب کا دکھ ہے، آپ کیوں پاکستان کو تباہ کر رہے ہیں لوگ کھائیں گے کیا؟ نہ پاکستان میں گیہوں رہے گا نہ چاول، آج کا اخبار دیکھیں دنیا کا دوسرا آلودہ ترین ملک ہے۔ کہیں سفر کریں ہر طرف ہاوسنگ سوسائٹیاں دکھائی دیتی ہیں، زرعی زمین شاید اتنا مالی فائدہ نہیں پہنچاتی اس لیے لوگ سوسائٹیاں بنا رہے ہیں، پاکستان گندم برآمد کرتا تھا اب درآمد کرتا ہے، دریا آلودہ کیے جا چکے ہیں۔‘
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ’جوڈیشل کونسل میں ایک مقدمہ چلا کر ہم نے سب کے کردار دیکھ لیے، بحریہ ٹاؤن کا تو پوچھیں ہی مت، وہ تو پاکستان چلا رہے ہیں، ریاست بھی بحریہ ٹاؤن کے ساتھ کھڑی ہے، اس کو دھندا نہیں کہتے تو کیا کہتے ہیں؟ جب یہ معاہدہ ہوا اُس وقت آرمی چیف کون تھا؟ وزیر اعلی کون تھا؟ وکیل نے جواب دیا کہ ’اس وقت پرویز مشرف آرمی چیف تھے۔ چوہدری پرویزالہی وزیراعلیٰ تھے۔‘
سن کر چیف جسٹس قاضی فائزعیسی نے ریمارکس دیے ’یہ ہیں ہمارے سپہ سالار، پاکستان کے اصل مالک ہی یہ لوگ ہیں۔‘
چیف جسٹس قاضی فائزعیسی نے مقدمہ لائیو چلانے کی ہدایت کی تو بحریہ ٹاؤن اور ڈی ایچ اے کے وکیل نے اس پر اعتراض کیا۔
اس پر چیف جسٹس قاضی فائزعیسی نے کہا کہ ’یہ لوگ بہت طاقتور ہیں، انہوں نے سب خریدا ہوا ہے، میڈیا پر بھی ان کے خلاف خبر نہیں چلتی۔‘
سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت عید کے بعد تک ملتوی کر دی۔