خیبر پختونخوا کے نگران صوبائی وزیر اطلاعات نے بتایا ہے کہ صوبے میں ’بحریہ ہاؤسنگ سوسائٹی‘ سمیت تین ’غیر منظور شدہ‘ ہاؤسنگ سوسائیٹوں کے خلاف عدالت سے سٹے آرڈر یا حکم امتناعی لینے کے لیے رجوع کرلیا گیا ہے۔
دوسری جانب ضلعی انتظامیہ کو ذمہ داران کے خلاف دھوکہ دہی کیس میں ایف آئی آر درج کروانے کے احکامات بھی جاری کردیے گئے ہیں۔
نگران وزیر اطلاعات فیروز جمال شاہ کاکاخیل نے انڈپینڈنٹ اردو کو ٹیلیفونک گفتگو میں بتایا کہ مزید اقدامات میں ان تین ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے دفاتر بند کرنا شامل ہے، جبکہ بل بورڈز، بینرز اور پوسٹرز اتارنے کا عمل بھی شروع ہوگیا ہے۔
صوبائی حکومت کے مطابق کارروائی کی زد میں آنے والوں میں ’بحریہ ہاؤسنگ سوسائٹی،‘ ’نووا سوسائٹی‘ اور ’سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی‘ کے نام شامل ہیں، جو فی الوقت تنازعے کا شکار ہیں۔
فیروز جمال شاہ کاکاخیل نے کہا کہ این او سی لیے بغیر رجسٹریشن فارم جاری کرنا اور اس عمل سے عوام کو ورغلا کر ان میں اپنی مشہوری کرنا دھوکہ دہی کے مترداف ہے، جو ایک جرم ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جگہ کی نشاندہی نہیں ہوئی، قانونی تقاضے پوری نہیں ہوئے اور عوام کو سرمایہ کاری کے لیے بلایا جارہا ہے۔ ایسی صورت میں جب کسی کا نقصان ہوگا تو کل کو عوام ہم سے سوال کریں گے۔‘
13 ستمبر کو ضلع پشاور کی تحصیل متھرا میونسپل ایڈمنسٹریشن (ٹی ایم اے) کی جانب سے ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) کو ایک مراسلے میں ’بحریہ ہاؤسنگ سوسائٹی‘ کے خلاف کارروائی کی درخواست کی گئی، جس میں موقف اپنایا گیا کہ ان کی حدود میں فعال بحریہ ہاؤسنگ سوسائٹی نے نو آبجیکشن سرٹیفیکیٹ (این او سی) نہ لے کر بلدیاتی حکومت کے قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔
مراسلے میں اس منصوبے کے خلاف دھوکہ دہی کی دفعات کے تحت کارروائی کرنے کی درخواست بھی کی گئی۔
اسی روز نگران وزیر اطلاعات فیروز جمال نے پریس کانفرنس میں نہ صرف بحریہ بلکہ دیگر دو نجی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے خلاف کارروائی کرنے کے فیصلے سے عوام کو آگاہ کیا اور انہیں غیر قانونی ہاؤسنگ منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے سے اجتناب برتنے کی تاکید کی۔
دوسری جانب بحریہ ہاؤسنگ سوسائٹی کا کہنا ہے کہ انہوں نے واضح طور پر رجسٹریشن فارم میں لکھا تھا کہ ’یہ فارم مارکیٹ سروے/ممبرشپ رجسٹریشن کے لیے ہے اور پراپرٹی کی الاٹمنٹ پشاور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (پی ڈی اے) کی این او سی کے بعد ہی ہوگی۔‘
حکومتی بیان اور مراسلے سے پانچ دن قبل بحریہ ہاؤسنگ سوسائٹی کے پشاور دفتر نے رجسٹریشن فارم جاری کیے، جس کی کُل قیمت 70 ہزار روپے تھی۔
یہ خبر سوشل میڈیا پر خوب تبصروں میں رہی۔ کچھ ایسی ویڈیوز بھی سامنے آئیں، جن میں رجسٹریشن فارم کے لیے جمع لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد کی دھکم پیل دکھائی دی۔
جہاں ایک جانب رجسٹریشن فارمز دو گھنٹے کے اندر ختم ہونے کی خبریں پھیلیں، وہیں سوشل میڈیا کے مختلف اکاؤنٹس پر کئی افراد اور مارکیٹنگ کمپنیوں نے فارمز کی دستیابی کے اشتہارات دیے، جس کے لیے انہوں نے ایک لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ روپے میں بیچنے کی شرط رکھی۔
’ہم پریشان ہیں‘
کئی پراپرٹی ڈیلرز نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو مین اعتراف کیا کہ ’ابتدائی مرحلے میں فارمز ڈیلرز کو ہی ملے، جو کہ متعلقہ دفتر اور بڑے ڈیلرز کے درمیان پہلے سے طے شدہ ہوتا ہے۔‘
تاہم انہوں نے کہا کہ گذشتہ روز وزیر اطلاعات کے بیان کے بعد چھوٹے ڈیلرز میں شدید بے چینی اور پریشانی کی لہر دوڑ گئی ہے۔
نوشہرہ سے تعلق رکھنے والے شفقت عالم نے بتایا کہ انہیں ڈر ہے کہ ان کا پیسہ ڈوب نہ جائے۔ شفقت کے مطابق انہوں نے 17 لاکھ روپے میں 20 فارم حاصل کیے، جن میں سے کچھ انہوں نے دیگر چھوٹے ڈیلرز کو بیچ دیے۔
’گذشتہ شب فون کالز کی بھرمار تھی۔ تمام سرمایہ کاری کرنے والوں کے لیے یہ ایک بہت پریشان کن رات تھی، کیونکہ کسی نے بیوی کا زیور تو کسی نے ذاتی گاڑی بیچ کر اس چھوٹے کاروبار میں ہاتھ ڈالا تھا۔‘
جہاں کچھ چھوٹے ڈیلرز پریشان ہیں، وہیں کئی ایسے بھی ہیں جو پرامید ہیں اور بحریہ ہاؤسنگ سوسائٹی کو ایک محفوظ سرمایہ کاری سمجھتے ہیں۔ ضلع مہمند کے سراج صافی نامی ڈیلر بھی ان ہی میں سے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے خیبر پختونخوا حکومت پر تنقید کی کہ وہ اس وقت کیوں خاموش رہی جب ’پشتون‘ سرمایہ کاری کر رہے تھے۔
’لاہور، کراچی اور راولپنڈی میں بحریہ ٹاؤن بنے وہاں تو کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔ یہاں ہی ہر بڑا کاروباری منصوبہ کیوں تنازعے کا شکار ہوجاتا ہے؟‘
سراج صافی کا الزام ہے کہ حکومت این او سی کو ایشو بنا کر اس صوبے کے عوام کو ایک بہت بڑے منصوبے سے محروم کر رہی ہے۔
مارکیٹنگ کے شعبے سے منسلک سلمان نامی ایک تاجر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’بحریہ ٹاؤن ایک بہت بڑا منصوبہ ہے، اس کے ناکام ہونے کے زیرو امکانات ہیں۔ جلد یا دیر سے تمام رکاوٹیں ختم ہو جائیں گی۔‘
سلمان کا کہنا ہے کہ دیگر صوبوں کی مثالیں موجود ہیں، جہاں ہاؤسنگ سوسائٹی کے لیے یہی طریقہ کار اختیار کیا گیا ہے، جو اس وقت پشاور میں اختیار کیا جارہا ہے۔
’کبھی انہوں نے بغیر این او سی کے کام نہیں کیا۔ اس کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے، لہذا اس کا حصول بھی ہو جائے گا۔ بس عارضی طور پر ایک مسئلہ کھڑا ہوگیا ہے، جس کی بحریہ ہاؤسنگ سوسائٹی جلد ہی وضاحت جاری کر دے گی۔‘
سلمان نے ڈیلرز میں فارم تقسیم کرنے کی بھی وضاحت کی اور کہا کہ بحریہ کا منصوبہ دراصل بڑے بڑے ڈیلرز کی وجہ سے ہی چلتا ہے، جو کروڑوں کی سرمایہ کاری کرتے ہیں۔
’یہی وجہ ہے کہ ابتدائی مرحلے میں رجسٹریشن فارم صرف ڈیلرز کے ہاتھوں میں ہی گردش کرتا رہتا ہے، جس پر عام شہریوں کو تعجب نہیں ہونا چاہیے۔ یہ چھوٹے بڑے ڈیلرز مہینوں کے جتن اور سرمایہ کاری کرکے اس کا حصول ممکن بناتے ہیں۔‘
خالد خان نامی پشاور کے ایک ڈیلر نے کہا کہ ان کے پاس کُل 10 فارمز تھے، جو وہ فروخت کر چکے۔
’مجھ سے فارمز خریدنے کے لیے کئی لوگوں نے رابطہ کیا، لیکن کچھ ایسے لوگوں کا بھی معلوم ہوا کہ ان کو جعلی فارم بیچے گئے۔ کئی لوگوں نے فارم پڑھا نہیں۔ کسی نے ویب سائٹ پر جا کر اصل نام نہیں پڑھا۔ دکھ ہوتا ہے جب لوگوں کے پاس پیسہ ہوتا ہے لیکن تعلیم اور شعور نہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ بحریہ سوسائٹی کے لیے پشاور میں مختلف جگہوں جیسے کہ جلوزو، متھرا اور تاروجبہ کا کہا جا رہا ہے، لیکن باضابطہ کچھ نہیں کہا گیا۔
وزیر اطلاعات نے اطلاع دینے میں دیر کیوں کی؟
انڈپینڈنٹ اردو نے وزیر اطلاعات سے تاخیر سے فیصلہ لینے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا کہ دو ماہ قبل انہوں نے اس سلسلے میں پیمرا کو مراسلہ ارسال کیا تھا کہ ٹی وی چینلز پر ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی تحقیقات کرکے اشتہارات بند کیے جائیں۔
’میں نے یہ قدم اس لیے اٹھایا تھا کہ ہر طرف اشتہارات کی ایک بھرمار تھی۔ میں نے اس سلسلے میں ایک میٹنگ بھی بلائی تھی، حالانکہ یہ بلدیاتی حکومت کی ذمہ داری تھی۔ اس میٹنگ میں سٹیک ہولڈرز اور تمام متعلقہ ڈپارٹمنٹس تھے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’پیمرا نے حکومت بدلتے ہی مجھ سے مشاورت کیے بغیر اس مراسلے کو نظر انداز کر دیا۔ مجھے جیسے ہی اطلاع ملی، میں نے ایکشن لیا۔‘
کاکاخیل نے پریس کانفرنس کے بعد اپنے اوپر لگنے والے الزامات سے متعلق کہا کہ اپنے فرائض منصبی ادا کرنے میں ان کے کوئی درپردہ مقاصد نہیں ہیں۔