ایک انسان کا دوسرے انسان کی مدد کرنے کا جذبہ انسانی جبلت کا حصہ ہے۔ خود ستائش، خود نمائش اور مشہور ہونے کا بھی اپنا مزہ ہوتا ہے، ایسے ہی خود کو دوسرے سے ممتاز رکھنا بھی انسانی فطرت ہے۔
یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے
ماہ رمضان میں ہم مسلمانوں کی شخصیت ان تمام انسانی عادتوں، فطرت، جبلت اور عبادتوں کا مجموعہ ہوتی ہے۔
یہ ماہِ صیام کا کرشمہ ہوتا ہے کہ فلاحی تنظیمیں صدقات، خیرات، عطیات کی شکل میں ایک ماہ میں اپنی پیٹیاں بھر لیتی ہیں۔ یہ پیسے سارا سال امدادی کاموں میں بوقت ضرورت نکلتے رہتے ہیں۔
فلاحی مقاصد کے لیے فنڈز دینے میں ہم اوور سیز پاکستانی بھی کسی سے کم نہیں۔ سیلاب یوں تو کوئی اچھی وجہ نہیں لیکن چونکہ پاکستان کو ہر کچھ سال بعد سیلاب کا سامنا رہتا ہے اس لیے بیرون ملک چندہ مانگنے والی بڑی مہم میں سیلاب سرفہرست ہے۔
پھر کینسر ہسپتال کی تعمیر بھی بیرون ملک سے فلاحی مقاصد کے پیسے بھجوانے کی ایک بڑی مہم رہی۔ ایسے ہی ڈائیلاسسز سینٹرز، گاؤں کے سکول، خشک سالی کی آفت یا معذور افراد کے لیے بھی اندرون و بیرون ملک سے چندہ اور عطیات وغیرہ لیے جاتے ہیں۔ ہم مشہور زمانہ ڈیم فنڈ کو اس فہرست میں نہیں رکھتے کیونکہ وہ چندہ مہم نہیں ایک عدالتی فراڈ تھا۔
ان عمومی باتوں کو دہرانے کا مقصد تمہید باندھنا ہے، شتر مرغ کے اس مسئلے کی جانب جس پہ صاحبان رائے گذشتہ کئی روز سے رائے زنی کرہے ہیں۔ قصہ مختصر یہ کہ کراچی کی فلاحی تنظیم جے ڈی سی نے سڑک کنارے ہونے والی مفت عوامی افطار میں شترمرغ کا گوشت پیش کیا۔
تنظیم کے قائد ظفر عباس کے بقول
کسی سیٹھ نے غریب روزے داروں کو شتر مرغ کھلانے کے لیے فنڈ دیا اور ہم نے کھلا دیا۔
معترض افراد کا کہنا ہے کہ لاکھوں روپے کے شتر مرغ کے بجائے سستی مرغی کیوں نہ کھلائی؟ پھر مرغی ہی کیوں چنی، بریانی کھلائی جاسکتی تھی، پھر بریانی ہی کیوں پیٹ تو کھچڑی بھی بھر سکتی ہے۔
بعض افراد جو شتر مرغ کے آئیڈیا سے زیادہ مرعوب نہیں ہوئے، ان کے مطابق ان لاکھوں روپوں سے تو کتنے ہی سکول کھولے جا سکتے ہیں، کئی بچے پڑھ سکتے ہیں۔
ایک صاحب نے کہا کہ آئی ٹی کا زمانہ ہے لیپ ٹاپ کیوں نہ بانٹ دیے۔ ایک صاحب کو یہ کہتے سنا کہ جتنے پیسوں میں شترمرغ اڑایا گیا، اتنے پیسوں میں جیلوں میں قید نجانے کتنے بے گناہ قیدیوں کو رہائی مل سکتی تھی، انصاف کا بول بالا ہو سکتا ہے۔
وہ جنہوں نے شتر مرغ پہ حلال اور حرام کی بحث شروع کر دی ان کی نسبت ایدھی فاونڈیشن کا وہ وقت یاد آ گیا جب عبدالستار ایدھی نے بچے قتل کرنے کے بجائے جھولے میں ڈالنے کی درخواست کی اور بحث حلالی اور حرامی تک جا پہنچی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
میں نے بذات خود ایدھی فاؤنڈیشن کے اس سکول میں پڑھایا ہے جہاں یتیم، غریب، بے سہارا اور ناجائز بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔
ان بچوں کو پاکستان کے کسی مہنگے ترین امریکن سکول سے بڑھ کر سہولیات دستیاب تھیں اور وہ امپورٹڈ قیمتی کھلونے، چاکلیٹس اور ٹافیاں جن کی اس زمانے میں ہم نے کبھی شکل نہیں دیکھی تھی، ان بچوں کو وافر مقدار میں دستیاب تھیں۔
یہ سوال میرے دماغ میں بھی کلبلاتا تھا کہ جس قدر مہنگے یہ امپورٹڈ کھلونے ہیں اتنے میں تو کسی بچے کی ماہانہ فیس جمع کروائی جا سکتی ہے۔ امپورٹڈ چاکلیٹس کون سی کوئی سستی ملتی ہیں، لیکن پھر ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ یہ امداد دینے والے کے اپنے وژن، نظریے پہ منحصر ہوتا ہے کہ وہ کس مقصد پہ خرچ کرنا چاہتا ہے۔
سینکڑوں فلاحی ادارے مختلف پروگرام چلاتے ہیں لیکن چندہ دینے والے عوام کی اپنی مرضی ہے کہ وہ کس مقصد پہ زیادہ لگانا چاہتے ہیں۔ کسی پیسے والے کے دل میں سمائے تو وہ دبئی سے مہنگے پرفیوم خرید کر بھی بطور عطیہ تقسیم کرسکتا ہے، اسے کون روک سکتا ہے۔
ایدھی فاؤنڈیشن تو زخمی، بیمار جانوروں کی بھی مدد کرتی ہے اب یہ امداد دینے والے کی نیت اور مرضی کہ وہ بیش قیمت ایئرکنڈیشنگ سسٹم اس ہال کے لیے عطیہ کردے جہاں زخمی گدھے رکھے جاتے ہیں۔
اب سوال یہ آتا ہے کہ جب سکول جیسے عظیم مقصد پہ پیسہ لگایا جاسکتا ہے تو عیاشی والی افطار کیوں کروائی جاتی ہے۔
سادہ جواب تو یہی ہے کہ جو کھلانے والا ہے اس کا دل چاہا کہ وہ غریبوں کو شتر مرغ کھلائے تو اس نے کھلا دیا۔ میرے مطابق زیادہ احسن دلیل یہ ہے کہ بطور قوم ہمارے اپنے رجحانات یہ طے کرتے ہیں کہ ہم اپنی کمائی کہاں خرچ کرنا چاہتے ہیں، ہماری اپنی سوچ طے کرتی ہے کہ ہم خاموشی سے طالب علموں کی ذمہ داری لیں اور انہیں اعلیٰ تعلیم میں سپورٹ کریں یا دھوم دھڑکے سے عوام کو دم پخت کھلائیں۔
دل کھول کر عطیات دینے والے سیٹھ اور مخیر حضرات ضروری نہیں کہ سوشل سائنس دان ہوں۔ یہ افراد اپنی مصروفیت، مالی اور ذہنی استطاعت کے مطابق اتنا ہی کرسکتے ہیں کہ پیسے دیں، دس دیگوں سے قورمہ نکلے اور ہزار بندہ کھالے یا گھر لے جائے۔
اول تو ہمیں ہر بات میں تصویر کے دونوں رخ دیکھنے کی عادت نہیں اور دوم یہ کہ ہم ایک نقاد قوم ہیں اور کچھ نہ ملے تو سڑک کنارے مفت میں ملی فروٹ چاٹ پہ تنقید کرسکتے ہیں کہ چاٹ میں ڈلے خربوزے پھیکے نکلے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔